آو بات کریں

آو بات کریں
تحریر محمد اظہر حفیظ

میرے والدین دونوں ھی ملازمت کرتے تھے ابا جی راولپنڈی میں ملازمت کرتے تھے اور امی جی گاوں میں سکول کی ھیڈ مسٹریس تھیں۔ ابا جی سے ملاقات ھفتے دو ھفتے بعد ھوتی تھی اور امی جی بھی سکول صبح جاتی تھیں اور پھر دوپہر کو آتیں تھیں، ماں باپ محنت کر رھے تھے ھمارے بہتر مستقبل کیلئے۔ امی بہت تھک جاتیں تھیں صبح ھم تین بہن بھائی اور ھمارے کزنز جو ھمارے پاس پڑھنے آئے ھوئے تھے سب کو تیار کرنا سکول بھیجنا واپس آکر دوپہر کا کھانا بنانا ھوتا تھا پھر کچھ دیر سونا اور اٹھ کر رات کی ھانڈی روٹی کا بندوبست کرنا، امی ھمیں رات کو نہلا کر سلا دیتیں تھیں کیونکہ صبح وقت بہت کم ھوتا تھا، میری امی میرے دیر سے اٹھنے پر بہت تنگ تھیں وہ اٹھاتیں تھیں اور میں پانچ منٹ اور کہہ کر سوجاتا تھا، امی روھانسی ھو کر کہتیں محمد اظہر تم میری نوکری چھڑوا دوگے، میری کوشش ھوتی کہ امی میرے سے باتیں کریں میرے الٹے سیدھے سب سوالوں کے جواب دیں اور امی مجھے انبیاء کرام علیہ السلام کی، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی اور بزرگان دین کی حیات پر کہانیاں سناتیں، میں سکول میں گلی محلے میں اپنے عزیز رشتہ داروں کے ساتھ باتیں کرتا اور ان کو اپنی باتیں سناتا میری تایا زاد بہنیں مجھ سے روز واقعہ کربلا سنتیں اور شاباش دیتیں، باجی طاھرہ، باجی طلعت، باجی عفت، باجی حمیرا مجھ سے اکثر یہ کہانیاں اور واقعات سنتیں، اور میں امی جی سے روز اور کہانیاں سنانے کی فرمائشیں کرتا، محمد اظہر سوجا پھر تیرے سے اٹھا نہیں جاتا بہت تنگ کرتے ھو، اباجی جب آتے تو میری کوشش ھوتی کوئی بات ان سے بھی کروں، وہ گرمیوں میں گھر سے باھر چارپائی بچھا کر سوجاتے تھے مجھے بھی ساتھ لٹا لیتے میں سوال کرتا رھتا ابو جی اے پنڈی کننا وڈا اے تے کننی دور اے یار سوجا میں تجھے جلد دکھا دوں گا۔ تو بتا وھاں شفٹ نہ ھوجائیں مجھے ڈر لگتا تھے سارے دوست گاوں میں ھیں کیسے شفٹ ھوجائیں ۔ کی سوچداں ایں کجھ نہیں اچھا سوجا صاحب صبح سکولے وی جانا اے اور مجھے گلی میں ڈر لگتا تھا ابو جی پیشاب کرکے آنا واں، صاحب تو واپس نہیں آنا ماں نوں تنگ کریں گا ابو جی بس آیا، گھر جاتا امی جی آگئے او اپنے ابو سے باتیں کرکے جھوٹ بول کے ۔ میں امی سے گلے لگ جاتا امی جی مجھے ڈر لگتا ھے باھر، اچھا آ سوجا تیرا ھی انتظار کر رھی تھی اور ھم سوجاتے صبح ناشتے پر ابا جی مجھے دیکھتے ھنستے اور کہتے صاحب تو ایک نمبر فراڈ آدمی ھے، کہہ کر جاتا ھے واپس نہیں آتا، ابو جی امی جی سے کہتے چوھدری صاحب اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں صاحب کو پنڈی دکھانے لے جائیں گے، اور پھر پہلی دفعہ میں اور بھائی ابو جی ساتھ پنڈی آئے مریڑ حسن پر میرے خالہ زاد بھائی میاں نواز احمد کا گھر تھا شاید ڈھوک چراغ دین نام تھا علاقے کا، ھم وھاں آئے روز نئی جگہ سیر کو جاتے کبھی ایوب پارک، کبھی شکر پڑیاں، کبھی دامن کوہ، کبھی یاسمین گارڈن، کبھی راول ڈیم بہت سیر کی چوتھی کلاس میں تھا پھر میرے پاس بہت باتیں جمع ھوگئیں تھیں میں گاوں میں سب کو سب بتاتا تھا اگلے سال ھم تینوں بہن بھائی اور امی بھی ابو جی ساتھ نواز بھائی کے پاس آگئے بہت سیر کی، ابو جی بھی ھمیں خوب وقت دیتے اور امی بھی۔ ھماری خوشی کو دیکھتے ھوئے امی جی نے ریٹائرمنٹ لے لی اور میں نے چھٹی کلاس بہن نے آٹھویں کلاس اور بھائی نے میٹرک میں پنڈی میں داخلہ لے لیا، اب ھم پنڈ سے پنڈی آگئے تھے۔ اب امی ھر وقت ساتھ ھوتیں تھیں جو تشنگی تھی امی سے باتیں کرنے کی وہ پوری ھونا شروع ھوگئی، لیکن آج بھی سوچتا ھوں جتنی باتیں امی ابو سے کرنی تھیں شاید وہ نہ کرسکا، امی ھمیشہ میرے کارناموں پر پردہ ڈالتی رھیں اور ابا جی کھلاتے سونے کا نوالہ تھے پر دیکھتے شیر کی آنکھ سے تھے، بات سننے سے پہلے صفائی دینے سے پہلے ھی تھپڑ ھوجاتا تھا پھر ابا جی بدلنا شروع ھوئے جن کے ڈر سے ھم پتنگ کی ڈور توڑ دیتے تھے جب میں نیشنل کالج آف آرٹس لاھور سے چھٹیوں میں آیا چھت پر پتنگ اڑا رھا تھا مجھے نہیں پتہ تھا ابوجی دفتر سے آگئے ھیں، چھت کا دروازہ کھلا ابو جی یار صاحب پتنگ فر اڑا لئیں روٹی ٹھنڈی ھوندی اے آ میرا صاحب روٹی کھائیے، میرے تو اوسان ھی خطا ھوگئے تھے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرھا تھا، کیا کروں، بہت مشکل سے جلدی جلدی پتنگ اتاری ڈور بھی وھیں پڑی رھنے دی اور پھر سیڑھیاں اترنے لگا تو امی پریشان کھڑی تھیں اور صفائی میں بولیں میں نے تو تمھاری بہن کو کہا تھا بلا لاو پر تمھارے ابو جی خود آگئے، انکا بھی یہی خیال تھا کہ چھت پر ھی چھتر پریڈ ھوگئی ھوگی، ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے کہنے لگے صاحب کدی کدی آنا ایں بہن بھائی کول بیٹھیا کر ماں نال گلاں کریا کر تو چھت تے چڑھ جانا ایں ۔ یہ پہلا میٹھا لہجہ تھا ابا جی کا میرے ساتھ، پھر سمجھانے لگ گئے یار اسی بہت تنگی دیکھی ھندوستان وچ زندگی بہت خوشحال سی پاکستان وچ آکے رل گئے، شکر الحمدللہ ھن بہت سہولت اے آسانی اے تسی میری زندگی وچ تنگ نہ ھونا خرچے دی فکر نہ کریں، جی ابا جی شکر الحمدللہ بہت اچھی زندگی ھے اچھا کھاتے ھیں اچھا پہنتے ھیں اچھی سواری ھے، یار توں گڈی لے جا موٹر سائیکل دی سواری مینوں پسند نئیں، ابو جی پہلے بہت خرچہ اے گڈی دی ضرورت نہیں یار تینوں کس گل دی فکر اے تیرا باپ زندہ اے تیرا خرچہ میری ذمہ داری اے، اس طرح زندگی گزرتی رھی، میں ایک شرمیلا بچہ تھا بہن بھائی سے کم ھی گفتگو ھوتی تھی وہ دونوں مجھ سے لائق تھے اور باتیں کرتے کرتے اپنا کام بھی کر لیتے تھے اور میں باتیں کرلیتا تھا اور کام رہ جاتا تھا، پھر یہ ھنر میں نے ان سے سیکھ لیا، باتیں کرتے ھوئے کام کرنا، اب میں دو ھی کام کرتا ھوں باتیں یا پھر کام تیسرا مجھے کچھ آتا نہیں ھے۔ امی جی اور ابو جی میری بات پوری سنے بغیر ھی چلے گئے ھیں، اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاکریں آمین، کبھی کبھی قبرستان جاتا ھوں دل کرتا ھے بیٹھ کر باتیں کروں پر جن سے زندگی میں کھل کر باتیں نہ کر سکا اب کیا کروں، میری دو بھتیجیاں ھیں ان کو بلوا کر اکثر باتیں کرتا ھوں چار بیٹیاں ھیں ان کو بتانے پر پتہ چلتا ھے کہ میں گھر میں ھوں، رہ گئے پیچھے میں اور میری ھمسفر آج پوچھا خیر ھے بہت چپ ھو کہنے لگی یار زندگی بدل گئی ھے اپنے ابوجی سے لیٹی باتیں کر رھی تھی ، بہت آسان زندگی تھی اب تو اکتیس سال ھوگئے انکو فوت ھوئے، پھر میں سوچنے لگ گیا کہ بہتر ھےھمیں اپنی تمام باتیں اپنوں سے انکی زندگی میں ھی کرلینی چاھیئں ورنہ بات دکھ کی ھو یا سکھ کی رو رو کر ھی کرنی پڑتی ھے، اپنوں کو اپنا سمجھئے ان سے اپنی باتیں کیجئے کہیں دیر نہ ھوجائے۔

Prev میں ایک پنچھی
Next بارہ دری

Comments are closed.