آگ

آگ
تحریر محمد اظہر حفیظ

آگ کسی کو نہیں پہچانتی۔ بے شک اس کو کوئی دیوتا سمجھے یا آفت، ھم نے آگ دیکھی مارگلہ کی پہاڑیوں پر اور کبھی کوئی کہتا کہ درخت کاٹ کر آگ لگا دیتے ھیں پھر کچھ دوستوں اور این جی او کی مدد سے راستے اور فائر پوائنٹ بنائے گئے۔ ایک ھیلی کاپٹر بھی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پاس تھا بیس سال پہلے راول ڈیم پر ایک تقریب میں اس کے آگ بجانے کا ڈیمو بھی دیا گیا اس ڈیمو کیلئے بھی آگ حسب عادت خود لگائی گئی۔ اور پھر بجائی گئی۔ پھر شہید ملت سیکریٹریٹ میں آگ لگی بہت سا ریکارڈ جل گیا اس دن پتہ چلا دارالحکومت میں اونچی بلڈنگ بنانے کی اجازت تو ھے پر آگ بجھانے کا کوئی انتظام نہیں۔ کہتے ھیں سب جگہ آگ لگائی جاتی ھے خود نہیں لگتی اس کے ھم انسان ھی ذمہ دار ھیں اور رھیں گے۔ پھر ھر جگہ آگ بجھانے کیلئے بحریہ ٹاون کی فائربریگیڈ بھی منگوائی جاتی ھیں عرصہ دراز سے آبپارہ سے پہلے اور زیرو پوائنٹ کے پاس بھی ایک فائر بریگیڈ ھے کبھی گاڑیاں خراب اور کبھی پانی کے بغیر یہ سلسلہ چلتا ھی آرھا ھے۔ بس یہ سنا ھے فائر بریگیڈ کی گاڑی کو سات بندوں کے قتل کی اجازت ھوتی ھے اگر اس کے سامنے آجائیں اب یہ نہیں پتہ کہ آگ بجھانے کی بھی اجازت ھوتی ھے یا نہیں۔ ھمارے ھاتھ چھوٹ قسم کے ایک وفاقی وزیر بھی شاید پہلے فائر بریگیڈ کے ڈرائیور رہ چکے ھیں دو منہ پر آگ لگا چکے ھیں پانچ ابھی باقی ھیں سات کی انکو بھی اجازت ھے۔ بہتر ھے اپنا منہ انکے ھاتھ کی پہنچ سے دور رکھیں۔ آگ ھمارے ملک میں پھیل گئی آگ تھی دھشتگردی کی کئی سال کی کوشش سے فوج کی مدد سے اس آگ پر قابو پایا گیا وہ آگ بھی ھماری لگائی ھوئی ھی تھی بجھائی بھی ھم نے ھی۔ پر ھزاروں جانوں کا نذرانہ عقیدت پیش کرکے۔ آجکل آگ آسٹریلیا میں لگی ھوئی ھے جانی اور مالی نقصان کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ اور آگ پھیلتی جارھی ھے وھاں کی فوج اور عوام ساتھ ساتھ کوششیں کررھے ھیں بس اللہ باری تعالی ھی اس مشکل میں مدد کرسکتے ھیں بارش کی دعا ھے کیونکہ یہ آگ انسان کے بس سے باھر ھے۔ بس اللہ کی پناہ چاھتے ھیں۔ امریکہ کا اپنا آگ لگانے کا سسٹم ھے کبھی افغانستان میں آگ، کبھی عراق میں آگ اور اب دیئے سے دیا جلایا گیا عراق سے آگ لیکر ایران کو آگ لگانے کی کوشش جاری ھے اور پھر اس دیئے سے اور دیئے جلائے جائیں گے اور آگ پھیلتی جائے گی۔ کچھ احباب جہاں بھی آگ لگی دیکھیں سیگریٹ جلانا اپنا حق سمجھتے ھیں بے شک کسی انسان کو ھی کیوں نہ لگی ھو۔ اگر کوئی جان بچانے کیلئے بجھا دے تو کہتے ھیں یار سیگریٹ تو لگالینے دیتے اتنی بھی کیا جلدی ھے۔ امریکہ بھی بس سیگریٹ سلگانے کیلئے آگ لگاتا ھے ورنہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ھوتا۔کیونکہ یہ کسی کے کنٹرول میں نہیں ھوتی۔ اگر دنیا میں کوئی سپر پاور ھے تو اسے کہو آسٹریلیا میں لگی آگ کو بجھادے۔ بے شک بحریہ ٹاون کی فائر بریگیڈ کو بھی ساتھ لے جائے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو سپر پاور سمجھتا ھے تو اس کیلئے یہ سٹڈی کیس ھی کافی ھے۔ انٹارٹیکا کے منجمند سمندر اور گلیشیئر ھی اگر موسمیاتی تبدیلی سے پگل جائیں تو سطح سمندر سے نیچے آباد سپر پاور کہاں جائیں گی۔ یقینا ڈوب جائیں گی۔ شاید کچھ ایسا ھوگا تو سپر پاور کی آگ بجھے گی۔ ورنہ ھم تو اس قابل نہیں کہ کسی کی بھی لگائی آگ بجھا سکیں۔ ھماری ھمت تو دعا کرنے اور رونے کی ھے جو ھم برس ھا برس سے کر رھے ھیں۔ پر ھماری دعائیں اور بدعائیں ابھی تک نہ تو کشمیر کی آگ کو بجھا پائیں اور نہ آزاد کرا پائیں اور نہ ھی ھندوستان کا بیڑا غرق ھوسکا۔ ھم میں تو اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں کہ دنیا کو بتاسکیں ھمارے ھاں دھشت گردی کون کروا رھا ھے۔ شاید اسی لئے جب ایک اینکر ایک خاص مقام تک پہنچتا ھے تو تھپڑ اسکا کسی نہ کسی شادی میں انتظار کر رھا ھوتا ھے۔ اور صلح نامہ بھی ۔ سچ بولو بے شک کھرا نہ ھو۔ اقوام عالم کو بتاو دھشت گرد کون ھے۔ ورنہ سب چینلز پر ڈرامے دکھاو طلاق دے دو شادی کرلو پھر طلاق دے دو پھر پہلے میاں سے شادی کرلو۔ آگ تو اس طرح بھی لگ ھی رھی ھے۔

Prev سال 2019
Next ایسا کیوں کیا

Comments are closed.