احتیاط زندگی ھے۔

احتیاط زندگی ھے۔
تحریر محمد اظہر حفیظ

زندگی اچھی گزر رھی تھی۔ ھر کوئی اپنا جگر تھا۔ پہلے گلے لگانا پھر ھاتھ ملانا عادت تھی۔ کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔ سب کو سر آنکھوں پر ھی رکھا۔ سب ھی مجھے اچھا سمجھتے تھے۔ اچھی نوکری تھی اولاد تھی گھر بار تھا کیا کچھ نہیں تھا، کبھی بیمار نہیں پڑا ھر طرح کے مزے تھے کبھی بیماری کو بیماری نہیں سمجھا، میں دنیا کے ساتھ ساتھ دیندار بھی تھا، عموما تبلیغ کیلئے نکل جاتا تھا مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو دین کی دعوت دیتا تھا۔ لوگوں کو بھی میرے قول وفعل کو دیکھ کر سکون ملتا تھا۔ میں زیادہ تر اللہ کی راہ میں نکلا رھتا تھا پورا تولتا تھا، پورا بیچتا تھا، حلال کماتا تھا، حلال کھاتا اور کھلاتا تھا، اللہ کے نام سے شروع اور ختم کرتا تھا اور پھر پاکستان میں کرونا وائرس کا شور برپا ھوگیا، ھمیں کیا ھم تو تھے اللہ والے، مجھے سمجھایا گیا کہ اس سلسلے کو کچھ عرصے کیلئے روک دیں جب تک یہ وباء قابو میں نہیں آجاتی۔ میں تو اللہ کی ماننے والا تھا دنیا کی کیا مانتا۔ اپنی جماعت کی تشکیل کے بعد نکل کھڑا ھوا اور ایک مسجد میں قیام تھا سارا دن گھر گھر دعوت دیتے اور نمازیں ادا کرتے وقت گزر رھا تھا، مجھے کچھ کھانسی کی شکایت ھوگئی تھی کھانسی خشک تھی اور بڑھتی جارھی تھی، کچھ وظائف بھی پڑھے اور گرم پانی میں شہد ملا کر بھی پی لیا اور تبلیغ کا کام جاری رکھا، سوچتا بھی رھا کس گھر یا محلے میں کس کو کھانسی تھی ، عموما لوگوں سے نزلہ زکام ھو ھی جاتا تھا۔ کچھ یاد نہیں آرھا تھا، اب آھستہ آھستہ میرے باقی ساتھیوں کو بھی یہ مسئلہ ھونا شروع ھوگیا تھا۔ ھمیں کیا ھم ٹھرے اللہ لوگ بندے ۔ فجر کے بعد تھوڑا آرام کرتے اور پھر تبلیغ کیلئے نکل کھڑے ھوتے، موبائل کا یہ فائدہ تھا بیوی بچوں سے والدین سے بات ھوجاتی تھی ویسے بھی انکو اللہ کے حوالے کرکے آئےتھے ۔ مجھے اب تیز بخار ھونا شروع ھوگیا ھے سانس لینے میں بھی دشواری ھورھی ھے میرے ساتھی مجھے نزدیکی کلینک لے گئے۔ اور انھوں نے ھمیں بڑے ھسپتال بھیج دیا۔ وھاں جاکر پتہ چلا ھم سب کرونا وائرس کا شکار ھوچکے ھیں ۔ انھوں نے داخل کرلیا۔ ھمت جواب دیتی جارھی ھے گھر بھی رابطہ نہیں ھورھا، آج جمعہ تھا سوچا شاید زندگی کا آخری جمعہ ھو یہ تو باجماعت ھونا چاھیئے میں اور میرا ایک ساتھی الحمدللہ ھسپتال سے بھاگ کر قریبی جامع مسجد گئے باجماعت نماز ادا کی اور ذمہ دار شہری کے طور پر ھسپتال واپس آگئے، ھسپتال میں کھلبلی مچی ھوئی تھی کہاں گئے تھے آپ لوگ کرونا وائرس کا شکار ھیں اور یہ وبائی بیماری ھے پتہ نہیں کتنے لوگوں کو اس کا شکار کر چکے ھوں گے ۔ ھم نے کہا انشاءاللہ کسی کو کچھ نہیں ھوگا، اللہ پر اپنا ایمان مضبوط رکھیں۔ اور وہ کمزور ایمان کے لوگ ھمیں ڈانٹ رھے تھے۔ میری حالت اور بگڑ گئی۔ مجھے وینٹیلیٹر پر شفٹ کردیا گیا میری باقی نمازیں بھی قضا ھوگیئں، اب مجھے کچھ نظر نہیں آرھا تھا بس آوازیں آرھیں تھیں میں جواب نہیں دے پا رھا تھا۔ اس پر سپرے کریں، ڈاکٹر صاحب اس کو پلاسٹک کے تھیلے میں بند کرکے تیمم کردیں گھر والے بھی نہیں دیکھ سکتے والد کو بلا لیں ساتھ قبرستان چلا جائے، حفاظتی لباس پہن کر ۔ اور کوئی میت کو نہیں دیکھ سکتا ۔ اور پھر تابوت کو رسوں سے کھینچ کر ایمبولینس سے اتارکر قبر میں اتارا گیا، یاالہی یہ سب کیا ماجرا ھے۔ مجھے وہ آخری فون کال یاد آرھی تھی جب بیوی کو فون کیا تھا ایک پیغام چل رھا تھا کرونا وائرس ایک وبائی بیماری ھے اس سے بچنے کیلئے ماسک پہنئے بار بار صابن سے ھاتھ دھوئیں، لوگوں سے دور رھیئے، اپنے گھر کے اندر چودہ دن کیلئے بند ھوجائیں، اپنے پیاروں کو وقت دیجئے، بلاضرورت گھر سے باھر مت نکلیئے، احتیاط ھی زندگی ھے، اور مجھے موذن کی آواز نے اٹھا دیا بے شک نماز نیند سے بہتر ھے۔ ایک ساتھی بھی اگئے بھائی فجر کا وقت ھوا جارھا ھے اٹھئے۔ میری آنکھ کھل گئی سارے ساتھیوں کو جمع کیا۔ اور اپنا بھیانک خواب سنایا، دو نفل شکرانے کے ادا کئے تاکید کی جب تک ملکی حالات نارمل نہیں ھوجاتے ھم گھر پر ھی رھیں گے۔نماز ادا کریں گے مزید علم حاصل کریں گے اور اپنے اردگرد لوگوں گا خیال رکھیں گے۔ جیسے ھی یہ وائرس کنٹرول ھوتا ھے زیادہ ھمت کے ساتھ تبلیغ کیلئے نکلیں گے یہ مناسب وقت نہیں ھے تبلیغ کا، اپنے آس پاس کے مستحق لوگوں کی مدد کیجئے حقوق العباد ادا کیجئے یہ بھی عبادت ھے اور میرے اللہ اور اس کے رسول کو بہت پسند ھے۔ جزاک اللہ خیر

Prev گھر میں رھیئے، سلامت رھیئے
Next زندگی میتوں پر روتی ھے

Comments are closed.