این سی اے میں پہلا دن

این سی اے میں پہلا دن
تحریر محمد اظہر حفیظ

1990 جنوری پہلا دن نیشنل کالج آف آرٹس لاھور ۔ فخر تھا این سی اے کا طالبعلم ھونے کا اور آرٹ کی دنیا میں باقاعدہ داخل ھونے کا، سید اخترصاحب،عباسی عابدی صاحبہ،میاں صلاح الدین صاحب،کولن ڈیوڈ صاحب،بشیر احمد صاحب، ایم ایچ جعفری صاحب، دبیر صاحب ،طلعت دبیر صاحبہ، شہناز ملہی صاحبہ،ڈاکٹر در صاحبہ، لالہ رخ صاحبہ، سلیمہ ھاشمی صاحبہ،ظہورالاخلاق صاحب،رحمانی صاحب، بلال قطب صاحب، میاں عامر،عسکری میاں ایرانی صاحب ، ڈاکٹر اعجاز انور صاحب اقبال حسن صاحب،اقبال حسین صاحب،افشار ملک صاحب،انور سعید صاحب ،نازش عطااللہ صاحبہ جیسے اساتذہ سے علم حاصل کرنا انکی صحبت میں رھنا سر فخر سے بلند تھا پاوں زمین پر نہیں لگ رھے تھے جن استادوں کا کام دیکھنا بھی سیکھنے کا عمل تھا ان سے پڑھنا کیا ھی بات تھی اور ڈر تھا سینئرز کی فولنگ کا اور پانی کے شاپرز کا ۔ جتنی بھی احتیاط کرلو بھیگنا تو سلیبس کا حصہ تھا ھی ۔ پہلی کلاس آڈیٹوریم میں ھوئی ۔ ٹوٹل 120 طالبعلم تھے اور 40 کے حساب سے تین سیکشن ،اے، بی،سی ھمارے حصے میں سی سیکشن آیا۔ کلاس میں داخل ھوا تو اندازہ ھوا سب فنکار ساتھ ھی ھیں، رضا علی دادا،عبدالجبار گل،ریشم سید،سائرہ،فریدہ،نویدہ،احسن رحیم، جواد بشیر،مہناز سرور، ٹیمی سکندر، طوبی سکندر،قدسیہ رحیم، زبیر، مظہر منیر کھوکر،آفتاب افضل، احمر رحمن ،رضوان قدیر،جہانگیر قریشی،سعدیہ زینب،پنکی، میاں نعیم،راو دلشاد، عامر رشید،احمد علی، فدا،سائیں سومرو،فہیم بادشاہ،راشد نور،عامر بلا،عمران قریشی، راعنا،راضیہ،عالیہ کوئٹہ والی،عالیہ کراچی والی نوریاشیخ،ملک اشرف،مشرف،انوشہ،بشری،بانی عابدی،عامر جاوید،فائق،اعجاز،شیریں بانواور باقی سب جگرز ھمارے کلاس فیلو تھے۔
فولنگ رات سے ھی شروع ھوگئی تھی۔ 4 ساندہ روڈ ھاسٹل میں سامان رکھا تو سامان غائب ایک ساڑھے چھ فٹ کا پٹھان مڑا بند پلستر کھلائے گا تو سامان مل جائے گا جی تابعدار جناب اور مولا کی دوکان سے پانچ بند پلستر کھلائے تو سامان ملا اور نام تھا محبوب بنگش اورساتھی سب سے پہلے ھی دن دوستی ھوگئی،چھبیس لوگ تھے ڈومیٹری میں۔ چھبیس چارپائیاں اور لاکر اور ایک 200 واٹ کا بلب سب بستر پر لیٹ گئے کمرہ بہت ٹھنڈا تھا بلب اٹھ کر کون بند کرئے اور پہلی کریٹو حرکت ھوئی سب نے اپنے اپنےجوتے بلب کو مارے اور بلٹ ٹوٹ کر بند ھو گیا، 
صبح اٹھے نہادو کر کالج چلے گئے اور شام کو سب نے ایک ایک روپیہ جمع کیا اور 26 روپے کا بلب آگیا اب یہ روزانہ شام کا معمول تھا۔ سونے سے پہلے بلب توڑنا اور شام کو نیا لیکر آنا، کیا مزےدار زندگی تھی۔ 
وہ وقت دوبارہ نہیں آسکتا، سوتے تھے تو پانی سے بھرا شاپر جگاتا تھا۔ سارا بستر گیلا ھوجاتا تھا، کالج جاتے تو ھر طرف سے پانی استقبال کرتا تھا بس اسی طرح دن گزر گئے اگلے سال ھم سینئر تھے اور ایک نئی کلاس کا استقبال تھا اور بدلے تو سب لینے تھے اور ھمارے پاس شاپرز کے علاوہ بالٹیاں بھی تھیں میں جونیئز کو گھیر کر لاتا مقررہ مقام سے دائیں بائیں ھوجاتا اور سب پانی پانی ھوجاتا،
سید اختر صاحب اس فولنگ کے بہت خلاف تھے۔ ایک دن میرے ھاتھ میں شاپر تھا اور سید صاحب میری طرف آگئے میں نے شاپر والا ھاتھ اپنی کمر کے پیچھے کرلیا، اوئے انناں سب کو باز کرا اے مینوں جاندے نئیں ۔ جی سر تو اچھا منڈا ایں جی سر اور سید صاحب کا دھیان دوسری طرف ھوا تو میں نے ایک لڑکی پر شاپر پھینکا اور دونوں ھاتھ باندھے کھڑا ھوگیا ۔ مکمل گیلی لڑکی سید صاحب کی طرف آگئی سر اس سینئر نے پانی پھینکا ھے سید اختر صاحب کے غصے کا سب کو پتہ تھا۔ وہ لڑکی اس بات کا فائدہ لینا چاھتی تھی۔ سید صاحب لڑکی عقل سے کام لو یہ تو میرے ساتھ کھڑا ھے پانی کسی اور طرف سے آیا ھوگا۔ اور میں بال بال بچ گیا۔اور یہ سلسلہ اگلے تین سال چلتا رھا اور پھر 1993 دسمبر تھیسزز کیا اور کالج سے باھر ۔ سب یاد تھا اور ساتھ تھا
آج گیارہ جنوری 2019 بس 29 سال بعد میری بیٹی علیزے اظہر کا نیشنل کالج آف آرٹس میں پہلا دن ھے اور ساری فلم میرے آگے چل رھی ھے، استاد اسکو بھی یقیننا قابل صد احترام ملیں گے پر فولنگ وہ والی نہیں ھو سکے گی کیونکہ نیشنل کالج آف آرٹس اب پنجرے میں بند ھو چکا ھے خواہ وہ لاھور ھو یا راولپنڈی ھر طرف ایک سیسہ پلائی ھوئی دیوار ھے اور کیمرے لگے ھوئے ھیں پرندہ پر نہیں مار سکتا شاپر کی کیا جرات۔ پتہ نہیں اتنی پابندی میں آرٹ پنپتا بھی ھے یا ڈرا ھوا اور سہما ھوا رھتا ھے ۔ یہ وقت بتلائے گا چار سال بعد بیٹی سے پوچھوں گا آزاد آرٹ اور پابند سلاسل آرٹ میں کیا فرق ھے ۔ میرے خیال میں تو آرٹ اور آرٹسٹ کو آزاد کر دینا چاھیئے ۔

Prev میں خیالوں میں رھتا ھوں
Next ستارے

Comments are closed.