بدتمیز

بدتمیز
تحریر محمد اظہر حفیظ

ایک استاد ھونے کے ناطے میرا واسطہ مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے پڑتا ھے، کل ایک خاتون جوکہ ھزارہ موٹروے پر پولیس والوں سے بدتمیزی کر رھی تھیں اور ساتھ اپنے شوھر اور اس کے ادارے کا نام لیکر ڈرا اور دھمکا رھی تھیں، اس میں کسی ادارے یا اس کے شوھر کی پوزیشن کا کوئی قصور نہیں ھے یہ فعل اس خاتون کا ذاتی ھے، اور اس کی تربیت کا قصور ھے مجھے رحم آرھا ھے اس بیچارے شوھر پر جو اس کے ساتھ زندگی گزارتا ھے اس اولاد پر جس کی تربیت کی ذمہ داری اس خاتون پر ھے، تقریبا تیس سال سے ھمارا واسطہ فوجی افسران سے انکی بیویوں، بیٹیوں، بیٹوں،بہن، بھائیوں سے پڑتا رھتا ھے نہ ھم نے کبھی یہ مزاج دیکھا اور نہ سنا، جرنل پرویز مشرف صاحب کی بیٹی ھماری کلاس فیلو تھیں اور دوست ھیں انتہائی باکردار اور تمیز دار خاتون ھیں، جرنل جہانگیر کرامت صاحب کا بیٹا اور بہو ھمارے جونیئر تھے کمال کے تمیزدار اور اچھے انسان کبھی کسی جانور تک سے بدتہذیبی کرتے نہیں دیکھا، جرنل شعاع قمر صاحب کی بیٹی میری شاگرد تھیں کبھی بلند آواز نہیں سنی، ابراھیم رسول میرا شاگرد عزیز اس کے والد صاحب میجر جرنل ھیں سارا خاندان دوست ھے کمال تمیز دار خاندان ھے۔ اسی طرح بہت سارے جرنلز، برگیڈیئرز، کرنلز، میجرز صاحبان کی، بیویوں، بیٹیوں اور بیٹوں سے واسطہ پڑا ھمیشہ سب کو قابل صد احترام پایا، کبھی کسی بھی رینک کے فوجی کی اولاد میں بدتمیزی کا عنصر نہیں دیکھا انکو ھمیشہ باادب ھی دیکھا،
میرے بھائیوں سے بڑھکر بڑے بھائی برگیڈیئر ریٹائرڈ یوسف اعوان کو اور انکی ساری فیملی کو زندگی میں بہت قریب سے دیکھا بدتمیزی کبھی پاس سے بھی نہیں گزری۔ اور مجھے اس دیندار شخص کی وہ تربیت کبھی نہیں بھول سکتی جب اس نے اپنی والدہ کے جنازے کی امامت خود کروائی، میرے دل میں انکا احترام اور بڑھ گیا، اور ھمیشہ رھے گا، اس بیچاری خاتون کے مزاج کو کبھی بھی اس کے شوھر کے ادارے یا پوزیشن کے ساتھ لنک نہ کیا جائے، انکا مزاج انکا ذاتی فعل ھے کسی ادارے کا مزاج نہیں فوج سے وابستہ لوگوں کی بیگمات کو بہت ھی کم بلند آواز دیکھا ھے، مجھے وہ سب شہداء کی عظیم بلند ھمت مائیں، بیگمات، بہنیں، بیٹیاں نظر آنا شروع ھوگئیں جو اپنے بیٹے،میاں،بھائی، والد کی شہادت پر مسکراتے ھوئے فخر کے ساتھ کہتیں ھیں الحمدللہ میں ایک شہید کی ماں ھوں، بیوی ھوں، بہن ھوں بیٹی ھوں،
ھمیں ھرگز بھی اس خاتون کو اس پیرائے میں نہیں لانا چاھیئے، اس پر محکمانہ کاروائی ھونی چاھیئے بے شک وہ فوج کرے یا پولیس۔
غالبا 1998 میں میں روزنامہ خبریں اسلام آباد کا چیف فوٹوگرافر تھا، ایک بچہ میرے پاس کام سیکھنے آتا تھا رات کو دیر سے ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اسلام آباد زبیر شیخ صاحب میرے محترم دوست ھیں کا فون آیا اظہر بھائی تھانے آسکتے ھیں جی بھائی آتا ھوں خیریت ایک بچے کے مستقبل کا سوال ھے، میں فورا تھانے پہنچا وہ شاگرد صاحب تشریف فرما تھے، زبیر شیخ صاحب جو آج کل ماشاءاللہ ایس پی انڈسٹریل ایریا ھیں، کہنے لگے بھائی جی معذرت اس وقت تکلیف دی اس بچے کو ناکے پر روکا تو اس نے موقع پر موجود عملے سے بہت بدتمیزی کی کہنے لگا تم مجھے جانتے نہیں ھو میں کون ھوں ابھی تمھارے ایس ایچ او کو ھٹوا سکتا ھوں، عملہ انکو لیکر میرے پاس آگیا ، پوچھا جوان کون ھو کہنے لگا فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ کا شاگرد ھوں تو میں نے کہا بیٹا اظہر صاحب میرے بھائی ھیں پر یہ زبان تو کبھی ان سے بھی نہیں سنی، بھائی آپ کو نہ بلاتا اس بچے کو چھوڑ دیتا تو یہ بدمعاش بن جاتا آپ کو زحمت دینے کا مقصد اس کو سمجھانا ھے کہ اس کی بدتمیزی سے آپ کو بھی تکلیف ھوئی ھے، یہ اتنا کارآمد اور اچھا طریقہ تھا کہ وہ بچہ آج وائس آف امریکہ میں کیمرہ مین ھے اور ماشاءاللہ بہت تمیز میں ھے، اس کو وقت پر پتہ چل گیا کہ بدتمیزی کسی چیز کا حل نہیں ھے،
اسی طرح اس خاتون کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اس کے شوھر کو تمغہ صبر و برداشت سے نوازا جائے اور عام معافی دی جائے کیونکہ انکے لئے یہ طاقتور باجی ھی مناسب سزا ھیں، اللہ انکے لئے آسانیاں کریں آمین، شاید یہ واقع انکی زندگی میں بھی بہتری لاسکے، یہ ایک فرد واحد کی شرم ناک حرکت ھے اس سے ادارے کے مزاج کا ھرگز بھی کوئی تعلق نہیں، اور مجھے خود شرم محسوس ھورھی ھے وہ سب تعلق جو فوج سے وابستہ لوگوں سے میرے ھیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ھے۔ ان سے وابستہ سب خاندان قابل احترام ھیں اور رھیں گے۔ انشاءاللہ

Prev شکریہ کرونا
Next عید

Comments are closed.