بلوے

بلوے
تحریر محمد اظہر حفیظ

یہ لفظ اکثر امی کے منہ سے روتے ھوئےسننے میں آیا کہ محمد اظہر حفیظ کیا بتاوں ھندو اور سکھوں کے بلوے کے بلوے گاوں پر حملہ آور ھوتے تھے مال و دولت جوان لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے تھے۔ مردوں کو قتل کردیتے تھے۔ اس طرح نہ تو کسی ایک کا نام لگتا اور کام بھی ھوجاتا پھر پاکستان آگئے۔ یہاں بھی یہ رواج چل نکلا ذاتی دشمنیاں میلوں پر بلوے اور جتھے کی شکل میں حملہ آور ھوتے دشمن کو ختم کر دیتے ۔ جب مقدمہ سو یا پچاس لوگوں پر ھوتا تو شک کا فائدہ دلوا کر وکیل حضرات بری کروادیتے۔ یہی وکیل صاحبان ھی تھے جو اپنے موکلوں کو مشورہ دیتے کہ کیسے دشمن کو ختم کیا جائے اور بس ھماری فیس دے دو۔ پھرجب بنگلہ دیش ھم سے علیحدہ ھوا تو بہت سے اندوناک واقعات بلوے کی شکل میں سامنے آئے۔ تاریخ گواہ ھے بلوے سے کبھی کسی کا فائدہ نہیں ھوا۔ ماسوائے وکیلوں کے۔ پھر یہی طریقہ 12 مئی کو چند سال پہلے وکیلوں کے خلاف استعمال ھوا جب یہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کیلئے کراچی ائیرپورٹ پر پہنچے تو بلوے کی شکل میں حملے ھوئے اور وہ سارا پروگرام ختم ھوگیا کئی ھلاکتیں ھوئیں پر سب کی ویڈیوز بننے کے باوجود کوئی سزا یا گرفتاری نہ ھوئی اس طرح کئی ھلاکتوں کے باوجود کوئی مقدمہ نہ بن سکا۔ پھر کسی ایک کی غلطی یا ذاتی عناد پر اقلیتوں کے گاؤں کے گاؤں جلادیئے گئے پر کسی کے خلاف پرچہ نہ درج ھوسکا۔ پھر یہ بلوے بینظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے دن دیکھنے میں آئے سارا پاکستان جل رھا تھا پر مقدمہ کسی پر نہیں بن رھا تھا پھر جب دھرنے ھوئے تو کئی بلوے مختلف سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے رھے اس کا مقدمہ وزیراعظم صاحب پر بھی ھے پر فائدہ کوئی نہیں کیونکہ اس کا ھمیشہ فائدہ لیا جاتا ھے کہ پتہ نہیں کون کون تھا۔ پھر جناب مولانا کا دھرنا فیض آباد شروع ھوا اور بلوے امڈ آئے اور پورے ملک کی پین دی سری ھوتے دیکھی اور وہ سب گرفتار آزاد بمعہ گھر کا کرایہ ھوئے یہ سلسلہ رک جانا چاھیئے تھا پر کل گیارہ دسمبر کو اسی بلوا ٹیکنیک کا استعمال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاھور کے خلاف وکیل حضرات نے کیا اور پتہ چل گیا کہ انکے کوٹ کا رنگ کالا کیوں ھوتا ھے۔ شاید کرتوت کی نشاندہی کوٹ سے کی جاتی ھے۔ ایک بلوے نے ھسپتال پر حملہ کیا اور کئی اموات ھوگئیں۔ صلح کیلئے جانے والوں کو بھی مار پڑی۔
گرفتاری کیلئے ثبوت چاھیئے ھوتا ھے اگر گورنمنٹ اس میں ناکام ھے تو برائے مہربانی ساری ویڈیوز جو وکلا نے بنائی ھیں،ڈاکٹرز نے بنائی ھیں، عوام نے بنائی ھیں یا پھر شہر اور ھسپتال کے کلوز سرکٹ کیمروں میں آگئی ھیں مجھے مہیا کی جائیں میں سب کی انفرادی تصاویر نکال کر بلامعاوضہ پیش کرنے کو تیار ھوں۔ تاکہ نادرہ سے پہچان کروانے کے بعد آسانی سے انکو گرفتار کیا جاسکے اور سزا دی جاسکے اگر قانون ویڈیو اور تصاویر کو شہادت نہیں مانتا تو پھر ایسے قانون کو میں بھی نہیں مانتا۔ شہر کے سب کیمرے اتار دیئے جائیں اندھوں کیلئے استعمال کی جانے والی سفید چھڑی سب کو تھما دی جائے ورنہ یہ بلوے ھماری جان کو آتے رھیں گے۔ کل پھر مجھے اپنی والدہ مرحومہ روتی، سسکتی اور سہمی ھوئی نظر آرھی تھی۔ کہ محمد اظہر حفیظ بلوے پھر آگئے ھیں ھم سب کو چھپا لو بچا لو اب تو انھوں نے اپنی یونیفارم بھی سلوا لی ھیں تاکہ کپڑے بھی ایک جیسے نظر آئیں اور پکڑے نہ جاسکیں۔ بیٹا کس کا کس سے جھگڑا ھے۔ جی ماں جی ڈاکٹروں اور وکیلوں کا۔ پھر مر مریض کیوں رھے ھیں املاک کو نقصان کیوں پہنچارھے ھیں ۔ کیا یہ اپنے لوگ نہیں ھیں۔ کیا یہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ھیں،کیا انکو قانون کا کوئی ڈر نہیں ھیے یہ سب کیا ھو رھا ھے ۔ میری ماں اور دھرتی ماں دونوں رو رھی ھیں اور مجھ سے پوچھ رھی ھیں بتائیں کیا جواب دوں ۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاھور کی بندش، رینجرز کی تعیناتی، بے شرم وکلاء کی ھڑتال اچھا حل نہیں ھے۔ ھر ایک قانون کے اندر رھنا ھوگا اور گورنمنٹ کو اس پر سکتی سے عمل پیرا کروائے۔ وکلاء کو خود ساختہ جج بننے سے روکا جائے۔ یہ کون ھوتے ھیں فیصلے کرنے والے اور سزا دینے والے۔ زرا سوچئے ۔۔۔

Prev خواب ھیں رھنے والے
Next بچہ جمہورا

Comments are closed.