بھنگ

بھنگ

تحریر محمد اظہر حفیظ

بھنگ کی قدر وقیمت صرف وھی جان سکتا ھے جس نے اس کا ذائقہ چکھا ھو یا اس کا مزا لیا ھو، باقی صرف مذاق ھی اڑا سکتے ھیں یا پھر سوشل میڈیا پر سٹیٹس لگا سکتے ھیں، جب تک تجربہ نہیں کیا تھا تو میرا بھی یہی رویہ تھا، سنا تھا کہ بھنگ صوفیوں، درویشوں کا مشروب ھے، جس دن تجربہ ھوا اس دن سے اپنے آپ کو صوفی اور درویش ھی سمجھ رھا ھوں، نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں پڑھتے تھے، طالب علمی کا زمانہ تھا، اس وقت تک انسان اپنے آپ کو آزاد تصور کرتا ھے، پھر وہ ذمہ داریوں کا غلام بن کر باقی زندگی گزار دیتا ھے، چرس کا دھواں بھی مزا کرتا تھا پر کبھی سیگریٹ بھی نہیں پیا تھا بس چرس کوئی پی رھا ھوتا تو اس کا دھواں تھوڑا سا مست مست کردیتا تھا، زیادہ کوشش ھوتی تھی کہ بچا ھی جائے کیونکہ بعد میں سردرد بہت شدید ھوتا تھا شاید الرجی تھی اس لیے بچے ھی رھے، شربت کبھی کھانسی کا نہیں پیا تھا تو دیسی یا ولایتی شربت کے پینے کا تو تصور کرنا ھی محال تھا اس لیے بچے رھے، بارہ تیرہ دوستوں کا گروپ تھا ھر وقت ھنسی کھیل ھی چلتا رھتا تھا، ملک قدرے کنجوس انسان واقع ھوا تھا، ایک دن نیشنل کالج آف آرٹس لاھور کی کار پارکنگ میں بیٹھے تھے شغل میلہ چل رھا تھا ایک چھوٹے پاپڑ بیچنے والا آگیا، بڑے پاپڑ تو ھمیشہ ھی دیکھے تھے جو آدھا کھانا ھی نصیب ھوتا ھے باقی زمین پر گر جاتا ھے، یہ اس کی خصلت ھے، سارے دوست پیار سے مجھے پیا جی کہتے تھے، ملک نے پہلی دفعہ کچھ کھانے کی آفر کی، پیا جی پاپڑ کھائیں گے، جی ضرور حیرانی بھی تھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ بھنگ والے پاپڑ ھیں میں ایک کی بجائے زیادہ کھا گیا تاکہ ملک کو تنگ کر سکوں اور وہ ھنسے پیا جی اور کھالیں، مجھے بھی ملک کا حاتم طائی بننا سمجھ نہ آیا، تھوڑی دیر میں نشہ چڑھنا شروع ھوگیا، ملک نے سردار معروف صاحب کو بتا دیا کہ پیا جی نے بھنگ والے پاپڑ کھائے ھوئے ھیں اکیلے نہ چھوڑنا، دوپہر تک میرا موڈ مست ھونا شروع ھوگیا تھا، سردار جی چھولے کھان چلیے ھال روڈ، چلو پیا جی، سردار بھی عقل کا سردار ھی تھا مجھے بائیک چلانے لگا دیا آھستہ آھستہ بائیک چلا رھا تھا، پیا جی گڈی کراس کرلو، او اچھا میں بھول گیا تھا، آپ پیچھے بیٹھیں میں چلاتا ھوں، اور یوں ھم ھال روڈ پہنچے، اب دوپیالے چنے کھا کر جب تیسرے کا کہا تو دوکاندار پہلوان اوئے باو کیوں ساڈے متھے لگنا ای، بس کر، گلاس میں پانی ڈالنا شروع کیا گلاس بھر گیا بہت دفع پا نی والےجگ کو روکا پر وہ پانی ڈالے جارھا تھا، سردار نے میرے ھاتھ سے جگ لے لیا، اب بھنگ اپنا اثر دکھانا شروع ھوگئی تھی، سردار مجھے اپنے گھر لے گیا اس کا چھوٹا بھائی روفی چائے لے آیا، جگر تیرا نام کیا ھے بھائی جان مذاق نہ کریں، جگر بتادے، جی روفی، اچھا ایک بات تو بتا جی بھائی جان ، تیرا نام کیا ھے، جی روفی جب یہ گردان دس دفعہ کی تو روفی بھاگ گیا، معروف کو جاکر کہنے لگا اظہر بھائی کو پتہ نہیں کیا ھوا ھے وہ مجھے بھی نہیں پہچان رھے بار بار نام پوچھ رھے ھیں، تو معروف کو یاد آگیا معاملہ کیا ھے وہ مجھے لیکر ہاسٹل آگیا، میرے ساتھ ھی رک گیا، کمرے میں ایک انسانی سکلپچر پڑا ھوتا تھا چار فٹ کا رات دو بجے میری آنکھ کھل گئی اور میں اس سے باتیں کر رھا تھا، تم کون ھو میرے کمرے میں کیسے آئے، دروازہ کس نے کھولا، سردار معروف میری آواز سن کر اٹھ گیا، پیا جی کی گل اے، یار معروفے یہ کون ھے، جگرسکلپچر، اچھا باتیں تو بڑی کرتا ھے اس نے ایک بیڈ شیٹ اٹھائی اس کے اوپر ڈال دی، چل جگر سوجا، میں ابھی لیٹا ھی تھا کیا دیکھتا ھوں کہ کھڑکی کے باھر چاند زمین پر اترا ھوا ھے، ایک گول سفید لائٹ لگی تھی ھاسٹل کے لان میں، پیا جی کدھر، یار معروفے چاند زمین پر کیسے آگیا، پیا جی سو جاو تہانوں فل چڑھ گئی اے، اور یوں وہ دن گزر گیا کوئی بڑا سین کئے بغیر معروفے کا شکریہ جو اس نے اس طرح سنبھالا ورنہ پتہ نہیں کیا کیا شغل لگتے، شاید زندگی میں یہ پہلا اور آخری نشہ کیا، لیکن آج بھی سوچتا ھوں توبھنگ کی خماری یاد آجاتی ھے بلکہ تھوڑا تھوڑا مزا بھی آنے لگتا ھے، کبھی کبھی دل کرتا ھے پھر سے صوفی اور درویش ھوا جائے پر سردار معروف اب بہت مصروف ھوگیا ھے پتہ نہیں کون سنبھالے گا، اور ملک بھی پہلے کی طرح کنجوس نہیں رھا، اس لئے کوشش ھی نہیں کرتا،

کچھ دوست حکومتی بھنگ آگاو پالیسی کا مذاق اڑا رھے ھیں، لیکن مجھے تو محترم مسعود انور صاحب کا وہ شعر یاد آرھا ھے ” تُوں کی جانے بھولیے مَجّے، انارکلی دِیاں شاناں” اس لئے دوستو اگر آپ اس درویشانہ مشروب سے مستفید نہیں ھوئے تو آپ کو کوئی حق نہیں بھنگ آگاو پالیسی پر تنقید کرنے کا، یہ حکومت کا پہلا بہترین اقدام ھے کیوں کہ کم از کم بھنگ پی کر آپ گھبرا تو سکتے ھی نہیں ھیں، ایک دوست کہنے لگے اسلام آباد آیا اور پشاور موڑ سے پکوڑے کھائے ان میں بھنگ ڈلی ھوئی تھی، جب موٹروے پر چکری کے نزدیک پہنچا تو چکر آنا شروع ھوگئے اس دن اندازہ ھوا اس جگہ کا نام چکری کیوں ھے، کیونکہ بھنگ آپ اسلام آباد میں استعمال کریں تو چکر یہاں پہنچ کر سٹارٹ ھوتے ھیں، اسی لئے اس کو چکری کہتے ھیں، شکریہ میرے کپتان جو اس سیلابی اور برساتی موسم میں بھنگ کی کاشت کا سوچا، ان مصیبتوں سے نکلنے کا یہی واحد سستا اور آزمودہ حل ھے، بے شک آزما کر دیکھ لیں، میرا تو آزمودہ نسخہ ھے، آو تم سب کو لیکر چلوں سیلاب سے پرستان تک،

یہ ھوتا ھے ویژن، اور بہت سے پیکج ھیں آپ سب کیلئے، بس گھبرانا نہیں ھے

Prev برداشت
Next جونک

Comments are closed.