بےبی

بےبی
تحریر محمد اظہر حفیظ
پتنگ اڑانی بھی ٹھیک طرح سے آتی نہ تھی اور لوٹنی تو بلکل بھی نہیں آتی تھی۔ نہ ھی مجھے یاد ھے کبھی پتنگ کے پیچھے بھاگے ھوں۔ ابا جی امی جی کی زندگی میں شدید سخت مزاج انسان تھے اور انکی وفات کے بعد ضرورت سے زیادہ نرم مزاج۔ لائلپور کی گرمی اور گاوں میں گھر کی چھت پر دوپہر کو پتنگ اڑانا کبھی کبھی نصیب ھوتا تھا اور اگر دور سے کوئی جناح کیپ پہنے نظر آجاتا تو سمجھتے تھے شاید ابا جی آگئے پتنگ جس بھی بلندی پر ھو فورا ڈور توڑتے تھے اور آکر سوئی ھوئی امی جی کے ساتھ لیٹ جاتے تھے اب انتظار کرتے کرتے سو جاتے پر ابا جی نہیں آتے تھے جمعہ کو چھٹی ھوتی تھی امی جی ابو کدوں آن گے محمد اظہر حفیظ شاید جمعرات نوں خیریت کجھ منگوایا اے اپنے ابو جی کولوں نہیں امی جی ویسے ھی پوچھا تھا اور ساتھ پتنگ اور اسکی ڈور یاد آنے لگ جاتی۔ چچا زاد بھائی ناصر یار اے جیڑا بندہ تایا جی دی طرح نظر آندا اے اسدا پتہ لگائے بڑیاں پتنگاں تے ڈور ضائع کراندا اے۔ بعد میں پتہ ساتھ والے گاوں کے رھنے والے بزرگ ھیں ۔ جناح کیپ پہنتے ھیں۔ میں اور ناصر کھیل کود میں بہت وقت ضائع کرتے تھے۔ بنٹے کھیلتے تھے ایک دفعہ کچھ بنٹے جیت گئے سٹور میں پیٹی کے نیچے چپائے ھوئے تھے۔ چچا شفیق نوکری سے چھٹی پر گھر آئے امی جی شفیق صاحب جی آپا جی منڈے ھر وقت باھر پھردے نے انناں دا کچھ کرو جی آپا جی۔ چچا جی نے بنٹے ڈھونڈ لیئے اور باھر نکل گئے ناصر بھائی یار تو نال جا ویکھ کتھے سٹ دے نے سویرے چک لواں گے جی اچھا اور میں ساتھ ھولیا چچا جی کدھر جارھے ھیں کیوں بیٹے میں وی جاناں اے آجا ۔ چچا جی سمجھ گئے جاسوس ساتھ جا رھا ھے رات کے وقت کھالے پر کھڑے ھو کر چچا جی نے چھٹا دے دے کر بنٹے پھینکے اور مسکرا رھے تھے بڑا آیا ساتھ جاسوسی کرنے۔ آپکو اندازہ نہیں میرے دل پر کیا گزری ۔ واپس آکر ناصر بھائی بہت مشکل ھے انکا ملنا اور پورا واقعہ سنا دیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاھور نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھتے تھے بسنت منانے چچا منظور کے گھر شاھدرہ جاتے تھے ھم سارے کزن مل کر پتنگ اور ڈور لیکر آتے اور پھر خوب مزا کرتے چچا منظور کو ھم بھائی منظور اس لیئے کہتے تھے کیونکہ وہ میری خالہ زاد بہن کے میاں بھی تھے اس لیئے ھم انکو چچا منظور کی بجائے بھائی منظور ھی کہتے تھے ۔ بہت ھی شفیق اور نفیس انسان تھے مجھے یاد ھے انکو پہلی دفعہ دل کا درد بھی چھت صاف کرتے ھوئے محسوس ھوا تھا کہ کل بسنت ھے چھت صاف ھونی چاھیئے۔ منڈے موج مستی کرن گے۔ جب میں اسلام آباد آیا تو ساتھ ڈور لے آیا اور پتنگ یہاں سے لے لئے ۔ میں پتنگ آڑا رھا تھا موسم بھی اچھا تھا دوپہر کو ابا جی چھت پر آگئےاللہ کی قسم میری تو جان ھی نکل گئی ابھی پتنگ کی ڈورتوڑنے ھی لگا تھا تو کہنے لگے یار صاحب آ تھلے چلئے کھانا بن گیا ھے۔ یہ پہلی مثبت چینج تھی جو ابا جی میں میں نے نوٹ کی۔ پتنگ اتاری ڈور لپیٹی کہنے لگے اندر رکھ دے اسلام آباد دے موسم دا کی پتہ۔ جی اچھا ابا جی۔ مجھے ابا جی پہلی دفعہ کچھ دوست دوست محسوس ھوئے۔ نیچے آئے پہلے امی جی نے پوچھا تہاڈے ابا جی کجھ بولے تے نہیں نہیں امی جی ابا جی بدل گئے ھیں میں تو ڈر ھی گیا تھا پر بہت شفقت سے پیش آئے ۔ امی کہنے لگی میں نے تمھاری بہن کو کہا کہ اسکو آواز دو کہنے لگے میں بلا کر لاتا ھوں تو مجھے لگا کچھ کہہ نہ دیں تو کہا چھٹی اے ہاسٹل تو آیا اے کجھ نہ کہنا بولے کچھ نہیں بس مسکراتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گئے۔
اولاد جب بڑی ھوتی ھے سمجھدار والدین وقت کے ساتھ ساتھ اپنے رویے بھی بدل لیتے ھیں۔ جو کہ بہت ضروری ھے۔ میری بڑی بیٹی اب مجھے ایک چھوٹے بچے کی طرح ٹریٹ کرتی ھے بابا آپ میرے بےبی ھیں لائیں جرابیں پہنادوں۔ پاوں میں تیل لگادوں سر میں کنگھی کردوں ۔ پانی پیئں شاباش۔ کھانا کھاتے کپڑے نہ گندے کر لینا۔ اگر بیگم کسی بات پر غصے میں ھوں تو کہتی مجھے جو مرضی کہہ لیں پر بے بی کو کچھ مت کہنا ابھی بہت چھوٹا ھے رات کو دیر سے گھر آوں تو پوچھتی ھے میرے بے بی کو ڈر تو نہیں لگا۔ میں اور بیگم چھ روزہ سیر کیلئے ھنزہ گئے ۔ کہنے لگی بے بی کسی سے کچھ لیکر مت کھانا انجان لوگوں سے مت ملنا۔ اسکی نانی کا فون آیا تمھارے والدین اکیلئے چلے گئے سیر پر جواب بہت شاندار تھا نانو جی بے بی پہلے چھوٹے تھے اس لئے ھم ساتھ جاتے تھے اب تھوڑا بڑے ھوگیئے ھیں اس لیئے پہلی دفعہ اکیلے بھیجا ھے دونوں کو دیکھتے ھیں تنگ تو نہیں کرتے ورنہ دوبارہ نہیں بھیجوں گی۔ فون کرتی تو پوچھتی بے بی کیا کھایا ناشتہ کیا دوائی کھائی ایک دن میں نے کہا بے بی ابھی چھوٹا ھے انسولین لگا دیا کرو کہنے لگی اتنا بھی چھوٹا نہیں ھے۔ وقت اور وقت کا فرق دونوں سمجھ نہیں آرھے۔ ابا جی آخری دنوں میں گر جا تے تھے تو میں انکو باتھ روم لے جاتا تھا اور نہلا بھی دیتا تھا۔ پہلی دفعہ کرسی پر بیٹھا کرایک دن نہلانے لگا تو کہنے لگا یار مینوں شرم آندی اے تو باھر جا۔ ابا جی جدوں مینوں نہلاندے سی میں کدی کہیا سی۔ اچھا یار کر لے اپنی مرضی۔ تسی سمجھو ھن تسی چھوٹے او تے اے ساڈی ذمہ داری اے۔ اچھا اچھا گلاں نہ کر نہلا جی اچھا ۔ بیٹی کی باتیں سن کر مجھے اپنا اور اپنے ابا جی کا پیار یاد آجاتا ھے۔ لائلپور جاتے ایک دفعہ کہنے لگے یار سیون اپ تے پلا جی ابا جی۔ میں پانچ سو ملی لیٹر والی لے آیا چھوٹی تھی نہیں کہنے لگے یار اننی کون پیئے گا جی تسی اپنی سہولت نال پی لو باقی میں پی لوں گا۔ جب میں باقی بوتل پی رھا تھا اس دن ابا جی کی مسکراھٹ اور اپنا پن مختلف تھا پھر کھانے سے اکثر بوٹی نکال کر کہتے تھے یار توں کھا لے۔ ھور کسے تے کھانی نہیں۔ امی جی کی وفات کے بعد ابا جی بہت زیادہ خیال کرنے لگ گئے جب تک دفتر سے نہیں آتا تھا انتظار کرتے تھے اور میں نے بھی اپنی روٹین بدل دی دفتر سے سیدھا گھر چلا آتا اب مجھے تقریبا پانچ سال ھوگئے ھیں وقت پر گھر آتے ھوئے۔ اس سے پہلے امی جی کہتی تھیں محمداظہر حفیظ تیرا کیا کروں تو تو رات کے پچھلے پہر واپس آتا ھے جلدی آجایا کر تیرے ابا جی غصے ھوں گے اب کبھی لیٹ ھوجاوں تو بیٹی کہتی ھے بے بی جلدی آجایا کرو کہیں ڈر نہ جانا۔بے بی جیکٹ پہن کر جاو سردی نہ لگوا لینا۔ بے بی بیگ تیار ھے میں ساتھ چلوں کیسے اٹھاو گے اتنا بھاری بیگ۔ مجھے اچھا لگتا ھے انکے ساتھ وقت گزارنا اور انکا بے بی بننا کیونکہ ھمارے اباجی تو ھمارے بے بی دوسال ھی رھے پھر چلے گئے ھمیں دیر سے سمجھ لگی کہ وہ ھمارے بے بی ھیں ان بچوں کو ذرا جلدی احساس ھوگیا ھے کہ ماں باپ کا بے بی کی طرح خیال رکھنا ھے ان کا شکریہ

Prev تکلیف
Next خواب ایک دیوانے کے

Comments are closed.