تصویریں 

تصویریں 
تحریر محمد اظہر حفیظ

جس شدت سےوالدین بچوں کے گھر آنے کا انتظار کرتے ھیں اسی شدت سے تصویریں اپنے مقام پر فوٹوگرافرز کا انتظار کرتی ھیں اور مجھے تو کئی دفعہ ایسے محسوس ھوتا ھے جیسے تصویریں، رزق اور موت کی مانند ھمیں تلاش کرتیں ھیں۔ ھم جدھر بھی جائیں ھمارے سامنے کھڑی ھوتی ھیں۔
بہت دفعہ پیچھا چھڑایا اس شوق سے یہ پھر آ گلے لگتا ھے کسی معشوق کی طرح۔ وہ پہلی سی محبت اور کوئی گلے شکوے بھی نہیں کوئی رونا دھونا بھی نہیں بلا وجہ مسکرائے جانا اور جو کبھی اس عشق سے چڑتے تھے اب خود کہتے ھیں تم بہت اچھی تصویریں بناتے ھو پہلے اپنے لیئے بناتے تھے اب میرے لیئے بناو اور ھماری مجال کہاں کہ بیگم صاحبہ کا حکم ٹال سکیں اور سو دوبارہ سے انکی سوکن کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے اور شروع کردی فوٹوگرافی۔ میں جب بھی بچوں کو کہتا ھوں بیٹا اپنی اماں کو بلاو تو پوچھتیں ھیں بابا جی بیگ والی یا گھر والی اور کبھی کہتی ھیں بابا جی پہلے والی یا دوسری والی۔ تقریبا دس ماہ سے دل سے فوٹوگرافی بند کی ھوئی تھی بس پیسوں کیلئے فوٹوگرافی ھورھی تھی۔ پھر حکم صادر ھوگیا اور جو مجھے نظر آنا بند ھوگئیں تھیں وہ دوبارہ نظر آنا شروع ھوگئیں اور میں نے پرانے عشق کو نئے سرے سے شروع کردیا مجھے ھمیشہ سے لوگ اور لوکیشنز پسند ھیں اور مجھے میرے پسند کی چیزیں ملنا شروع ھوگئیں۔ کیمرے نکالے صاف ستھرے کیئے اور یہ کیا وہ مجھے بلکل ویسے ھی ملے جیسے پرانے عاشق ملتے ھیں یا پھر بچپن کے دوست،
بیٹھ کر کافی باتیں کی سوری بھی بولا کہ یار سوری اتنے دن ملاقات نہیں ھوئی جواب وھی تھا یاروں والا اس سے کیا فرق پڑتا ھے اور عشق میں تو سوری اور شکریہ نہیں ھوتا بس برداشت کچھ زیادہ ھوتی ھے۔ بندہ بلاوجہ ھنستا رھتا ھے میں نے ان کو بتایا جب بھی کوئی تمھارا نام لیتا تھا نائیکون ڈی 850 یا پھر نائیکون ڈی 500 تو میرے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی تھی جیسے کسی عاشق کے سامنے معشوق کا نام لیا جائے۔ میں نے یہ بھی بتایا دیکھو میری جان میں ھرگز بھی بے وفا نہیں ھوں مارکیٹ میں اور بھی کیمرے آئے پر میں تو تم تک محدود رھا۔ میری ساتویں نمائش میں ھر پوچھنے والے کو بے ڈھڑک تمھارا نام بتایا کہ جی یہ میرے ھمسفر ھیں ھم ھمیشہ ساتھ ساتھ ھوتے ھیں میری بیوی اور بیٹیاں پہلے تو آپ سے جیلس ھوتی تھیں اب تو وہ بھی تمھیں پسند کرنا شروع ھوگئیں ھیں۔ تمھیں خود میرے ساتھ گاڑی میں سوار کراتی ھیں بمعہ تمھاری مکمل فیملی کے۔ بابا جی کیمرے، لینز، فلیش، سٹینڈ، ریموٹ، ریفلیکٹر، ڈرون سب رکھ دیئے ھیں کچھ اور چاھیئے۔
بیٹریاں سب چارج ھیں کارڈ خالی ھیں۔ جی بہتر ۔
میں بہت تڑپتا رھا جب دیکھتا تھا املتاس کے پھول نکل آئے ھیں ساری مارگلہ روڈ پیلی ھوگئی ھے سیونتھ ایونیو بھی پیلی ھوگئی ھے جیسے کسی کی مہندی ھو اور ھر طرف پیلے پھول سجے ھوئے ھیں پر میں نے کوئی تصویر نہیں بنائی بس بے بسی سے ان کو دیکھتا رھا۔ تصویریں موجود تھیں پر میں نہیں شاید کوئی اور اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کررھا تھا۔ میں اداس تھا شعر کہتا تھا کہانیاں لکھتا تھا جیسے ایک ناکام عاشق کرتا ھے پر اب کیا ھوگیا مجھے میرا عشق دوبارہ مل گیا ھے اور تصویریں بھی واپس نظر آنا شروع ھوگئی ھیں پر میری کہانیوں کا کیا ھوگا۔
لوگ بھولنا شروع ھوگئے تھے کہ میں ایک فوٹوگرافر تھا وہ مجھے لکھاری سمجھنا شروع ھوگئے تھے۔ اور میری کہیں کوئی غیر حاضری نہیں لگ رھی تھی لوگ بھی تصویریں چھوڑ الیکشن، ورلڈ کپ میں مشغول ھوگئے تھے۔ اور بس تصویریں میرا انتظار کر رھی تھیں ان کے انتظار کا اندازہ مجھے ان سے گلے مل کر ھوا جو مجھے اور میں انھیں محسوس کررھا تھا ۔ اب میرے پاس مزید ٹولز بھی آگئے ھیں اور مزید تصویریں بھی۔ مجھے اب یقین ھوگیا ھے کہ یہ عشق توڑ چڑھے گا انشاءاللہ۔

Prev نفرت کے ایوارڈز
Next محتاط 

Comments are closed.