جمع

جمع
تحریر محمد اظہر حفیظ

میں بھی ایک عجیب طرح کا انسان ھوں مجھے کبھی حساب نہیں آیا۔ساری زندگی جمع کرنے کی کوشش کرتا رھا۔ میں ایک ایسا سادہ لوح انسان ھوں جو تفریق کے سوالوں کو بھی جمع کرتا رھا اور تقسیم کے سوالوں کو بھی جمع کرتا رھا۔ جب بھی کہیں لڑائی ھوئی صلح کی کوشش کراتا رھا، ھر طلاق جو ھونے سے پہلے میرے علم میں آئی اس کو رکوانے کی مکمل کوشش کرتا رھا اور جو ھوگئی اس پر اپنے آپکو کوستا رھا کہ کاش مجھے پہلے معلوم ھوجاتا تو یہ نہ ھوتا جو ھوا۔
ایسے ھی زندگی گزر گئی۔ مجھے رشتے دوستیاں تعلق جمع کرنے کے علاوہ کچھ بھی جمع کرنا نہ آیا۔ 
آج کل ھر دوسرا شخص سوشل میڈیا پر جناب ڈالر بیچ کر روپیہ خریدیں اور ملک کی مدد کریں۔ میں نے اس حالت میں اپنے آپ کو بے حد بے بس پایا کیونکہ میرے پاس نہ ڈالر ھیں اور نہ ھی روپیہ۔ میں اپنے ملک کی خدمت کیسے کروں۔
کچھ دوست کہہ رھے ھیں منی ایکسچینج بند کر دیں۔ ڈالر بنکوں کے ذریعے بیچیں ھر کوئی اپنی عقل کے ذریعے مشورہ دے رھے ھیں۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈالر کا نوٹ کتنے کتنے کا ھوتا ھے تو میں مشورہ کیا دوں۔ مجھے صرف اتنا پتہ ھے جو تنخواہ مجھے مہینے کے آخری دن ملتی ھے اگلے پانچ دن میں ختم ھوجاتی ھے اور سب ذمہ داریوں کی ادائیگی ھوجاتی ھے پھر چھوٹی موٹی فوٹوگرافی کی اسائنمنٹ سے خرچہ چلتا رھتا ھے الحمدللہ اگر ساری زندگی کچھ جمع نہیں کرسکا تو تنگی بھی کوئی نہیں ھے اللہ نے سب خواھشیں پوری کی ھیں شکر الحمدللہ۔
اور امید واثق ھے وہ میرا رب باقی زندگی بھی آسان ھی رکھے گا اور رزق کریم ادا کرے گا۔ انشاءاللہ
فوٹوگرافی میرا شوق ھے اور سب ضرورت کی چیزیں الحمدللہ میرے اللہ نے مجھے اپنی عطا کی ھیں۔
مجھے مال و دولت جمع کرنا کبھی نہ آیا اور نہ ھی آسکتا ھے ۔ شاید یہ ضروری چیز ھو۔ پر میرے سارے کام بغیر جمع کئے ھوتے جارھے ھیں اور انشاءاللہ ھوتے رھیں گے تو میں جمع کرکے کیا کروں۔
اکثر دوست پوچھتے ھیں آپ کا ڈالر اکاونٹ ھے تو کیا بتاوں مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ اسکا فائدہ کیا ھے اور جو میرا اکاونٹ ھے مجھے اس کا بھی یاد نہیں رھتا کہ وہ کرنٹ ھے یا سیونگ۔ 
یکم رمضان کو زکوت کی کٹوتی ھوتی ھے ۔کچھ مال جمع کرنے کے شوقین مشورہ دیتے ھیں بنک سے پیسے نکلوا لیں ورنہ کٹوتی ھوجائے گی ۔ چلو پانچ سو میں سے کتنے کاٹ لیں گے کیا مطلب جی میرے اکاونٹ میں پیسے ھی نہیں ھیں ۔ بارانی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا چار ھزار روپے ملتے تھے چار کلاسوں کے ایک شاگرد پراپرٹی کا کام کرتا تھا ایک دن کہنے لگا سر جی چھ سو کنال کا ایک ٹکڑا ھے زمین کا لے لیں انویسٹمنٹ کے لحاظ سے بہت اچھا ھے بیٹے میں تو یہ نوکری اس لیئے کرتا ھوں میری بیٹی کا گاڑی والا ماھانہ چار ھزار روپے لیتا ھے۔ اور میں ضرورت کے مطابق کام کرتا ھوں فالتو مشقت مجھے پسند نہیں۔ 
جب میڈیا ٹاون بنا تو کچھ دوستوں نے کہا پلاٹ لے لو عرض کیا والدین کے گھر میں رھتا ھوں ضرورت نہیں آج پلاٹ لوں گا پھر بنانے کیلئے کروڑ دو کروڑ چاھیں میں اپنی زندگی کیوں اجیرن کروں۔ وہ مجھے دیوانہ سمجھ کر ھنستے ھیں ۔ پر کیا کروں میں ایسا ھی ھوں۔ میری بیٹیاں اچھے سے پڑھ لکھ جائیں ان کے اچھے نصیب ھوں اپنے گھروں کی ھوجائیں مجھے کچھ اور کیا چاھیئے یہی میری زندگی ھے اور یہی اس کا حاصل۔ 
کچھ دن پہلے دفتر جانا ھوا تو میرے کچھ آئیڈیل میرے سینئر ساتھی گیٹ پر بیٹھے تھے بہت دل آزاری ھوئی ۔ گاڑی پارک کی واپس ان کے پاس گیا ان سے سلام دعا کی پوچھا میرے لائک کوئی حکم روزے میں سڑک پر کیوں بیٹھے ھیں تو پتہ چلا ریٹائر ھوئے تین سال ھوگئے پینشن تو مل رھی ھے پر جمع شدہ پیسے نہیں ملے کسی کے پچاس لاکھ ھیں تو کسی کے تیس لاکھ سب کے ملا کر ایک ارب سے زیادہ ھیں اور ادارے پاس پیسے نہیں ھیں۔ انکی حالت دیکھ کر بہت دل آزاری ھوئی۔ بڑے بھائی کو ساری صورتحال بتائی تو کہنے لگے یار اگر آپکے ادارے کے حالات ایسے ھیں تو پلیز ریٹائرمنٹ سے پہلے کوئی بندوبست اگلی نوکری کا کر لینا کیونکہ ایسے تو زندگی بہت مشکل ھے۔ جب ان دوستوں سے بات ھوئی تو پتہ چلا کہ کئی کے گھر کے چولہے بھی بہت مشکل سے جل رھے ھیں۔ پینشن تو تقریبا تنخواہ کا 25% رہ جاتی ھے۔ پھر سوچا ھوتا ھے اکٹھے پیسے ملیں گے گھر بنا لیں گے بچوں کی شادیاں کریں گے پر سب خواب چکنا چور ھوجاتے ھیں۔
اب سمجھ نہیں آرھی جو کام مجھے آتا ھی نہیں پیسے جمع کرنے کا وہ کس سے سیکھوں یا پھر ایسے ھی باقی زندگی بھی گزار دوں اللہ توکل۔ 
جانا تو خالی ھاتھ ھی ھے پھر یہ سب کس لیے کس کے لیے۔

Prev ڈاکو
Next فرشتہ

Comments are closed.