خواب ایک دیوانے کے

خواب ایک دیوانے کے
تحریر محمد اظہر حفیظ
میرے استاد محترم احسان علی قریشی ایک شریف النفس فنکار ھیں۔ پین اینڈ انک شاید ھی ان سے بہتر کوئی کر سکتا ھو۔ ایسی سکیچنگ کرتے ھیں کہ کمال کرتے ھیں۔ بیچ میں جب انکا دل سکیچنگ سے بھر جاتا ھے تو وہ آئل پینٹنگ اور واٹر کلر کی طرف مائل ھوجاتے ھیں کام تو انکا بہت شاندار ھے پر جو انکا پین اینڈ انک کا کام ھے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ 
میرے ایک اور استاد محترم آصف ارباب صاحب جنہوں نے مجھے زندگی جینے کا ھنر سکھایا ایک دن کہنے لگے ھر انسان کے پاس ایک ایسی قینچی ھونی چاھیئے جس سے وہ اپنے دل کی رگیں خود کاٹ سکے پر یہ کیسے ممکن ھے کہنے لگے جب یہ ھنر سیکھ جاو گے تو جینا سیکھ جاو گے۔ بات کچھ سمجھ نہیں آئی ۔ پر آج بائیس سال گزرنے کے بعد اندازہ ھوا کہ یہ ھنر مجھے شاید آگیا ھے ۔ میرا فوٹوگرافی سے جو لگاو تھا اس کو میں نے کاٹ پھینکا اور اپنی قینچی کو استعمال کیا۔ پھر دوستوں کی تصاویر مجھے دوبارہ مائل کرنے لگتی تھیں تو میں نے فیس بک بند کر دی پہلی فوٹو واک تھی سید پور گاوں میں جس میں کیمرہ آن ھی نہیں کیا بس واک کی اور باتیں۔ اس ایک ماہ میں صرف اس دوری سے آٹھ کلو وزن کم ھوا اور کچھ نہیں ھوا سب پسند کی چیزیں چھوڑ دیں جس کا اثر یہ ھوا کہ کسی کو سمجھ نہیں آ رھی کیا ھوا ھے ھر کوئی پوچھتا ھے پریشانی کیا ھے سوچ کیا رھے ھیں مسکرا کیوں رھے ھیں رو کیوں رھے ھیں چپ کیوں ھیں کہاں کھو گئے ھیں کیا جواب دوں اب نہ میرے پاس سوال ھیں نہ جواب۔ قینچی استعمال تو کردی پر دل پر ھلکا ھلکا درد رھتا ھے ھر وقت دیکھیں وہ کیا رنگ لاتا ھے۔ میں چپ چاپ سب دیکھ اور محسوس کر رھا ھوں۔ فوٹوگرافی تو چھوڑ دی پر مجھے اور کوئی ھنر بھی تو نہیں آتا ۔ میں نے محبت کرنا بھی اسی سے سیکھا تھا میری ھر بات تصویر سے شروع ھوتی تھی اور تصویر پر ختم ھوتی تھی اب تو باتیں اور محبتیں سب ختم ھو گئیں ۔ آج تین گھنٹے کا لیکچر تھا فوٹوگرافی پر کامسیٹس یونیورسٹی میں کیمرہ بیگ سے نہیں نکالا لوگوں کے کیمروں سے پڑھایا اور واپس چلا آیا۔ بہت مزے کا لیکچر تھا فوٹوگرافی پر بہت گفتگو ھوئی تمام سوالوں کے جواب دیئے۔ پر میرے پاس میرے سوالوں کے جواب نہیں ھیں نہ ھی جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ میرا دل کرتا ھے باقی زندگی بطور گرافکس ڈیزائن کرتا گزاروں اور آٹھ گھنٹے کی نوکری کروں ھفتہ اتوار چھٹی کروں ۔ واک کروں گھوموں پھروں نظارے کروں اور دنیا کو صرف اپنے لئے دیکھوں۔ افسردہ گانے مکیش صاحب کشور صاحب اب اچھے لگنا بند ھوگئے ھیں۔ کچھ نئے گانے تلاش کر رھا ھوں۔ میں پھر بھی تم کو چاھوں کا پہلا گانا ملا ھے دوسرا گانا راحت صاحب کا وفاوں کے بدلے ابھی دو گانے ھی ملے ھیں کچھ اور چاھیئں وقت تو گزارنا ھے اور سفر بھی کرنا ھے بغیر موسیقی سفر مشکل ھے ۔ یہ تو میرا آخری فیصلہ ھے۔ جب میں اللہ کے بنائے نظارے دیکھتا ھوں تو اس میں اس قدر کھو جاتا ھوں کہ مجھے پھر خود اپنے آپ کو تلاش کرنا پڑتا ھے نہ تو گانا سنائی دیتا ھے اور نہ ھی یہ یاد رھتا ھے ساتھ کون ھے۔ میں شروع سے ھی جاگتے میں خواب دیکھنے کا عادی ھوں اور مجھے دنیا میں سب دیکھا دیکھا لگتا ھے کچھ بھی نیا نہیں ھے بس میرے خواب سچے ھو رھے ھیں۔ اور میں دنیا کو دکھانے کے لئے اپنے خوابوں کی تصاویر بناتا رھتا تھا بہت غلطیاں ھوئیں اپنے سب خواب سب کو دکھا دیئے۔اب کے سوچا ھے تصویریں نہیں بناوں گا بس خواب دیکھوں گا اور مزے لوں گا۔ کسی کو نہیں بتاوں گا کہ ھنزہ کیسا ھے خنجراب پر سردی کیسی تھی اولڈ سلک روٹ اب کیسا ھے آبشار کی آواز کیسی تھی پسو کونز کیسی تھیں۔ شاہجہان مسجد کیسی تھی مکلی کا قبرستان کتنا بڑا ھے تیل کیسے نکلتا ھے اور گیس کیسے۔کلر کہار کیسا ھے اور شالیمار باغ کیسا ھے لاھور قلعہ کیسا ھے بادشاھی مسجد کیسی ھے اور جہانگیر کا مقبرہ کیسا ھے۔ سمندر دریا نہر ڈیم کیسے ھوتے ھیں پولو نیزہ بازی بیل دوڑ موت کا کنواں کیسے دکھائی دیتے ھیں لینڈ سکیپ اور پورٹریٹ کیسے بنتے ھیں اب آپ کو یہ سب معلوم کرنے خود جانا ھوگا کیونکہ میں اب کسی کو بتانا نہیں چاھتا۔ اور نہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میرا دل اب کسی سے راستہ پوچھنے کو بھی نہیں کرتا راستہ بھولنا ایک مزے دار کام ھے اور اکثر میں موبائل کی راھنمائی بند کرکے راستہ بھول جاتا ھوں اور ان جگہوں کو دیکھتا ھوں جو پہلے نہیں دیکھیں ۔ میں سب بھول کر دیکھنا چاھتا ھوں کیسے نظر آتا ھے۔ تیار ھوکر کنگھی کرکے نہا دھو کر دفتر جاوں دفتر سے نکلوں اور دفتر کو بھول جاوں پھر بھٹکتا پھروں مونال جانے کیلئے نکلوں اور گولڑہ چلا جاوں پشاور جانے کیلئے نکلوں اور لاھور چلا جاوں ۔ قبرستان جاوں پہلے امی جی کی بجائے اباجی کی قبر پر چلا جاوں پر ھمیشہ امی جی کی قبر پر پہلے پہنچ جاتا ھوں یہ پتہ نہیں کیا چکر ھے پھر ابا جی آنٹی پروین گوندل،فواد فاروقی،معراج خان صاحب،بوا جی،غلام رسول صاحب اور باقی قبرستان ھمیشہ یہ ترتیب رھتی ھے پتہ نہیں کیوں۔
میں سب بدلنا چاھتا ھوں ۔ کچھ بھول کر یاد کرنا چاھتا ھوں۔ سوچتا ھوں سبزی منڈی،ریلوے اسٹیشن،اقراء یونیورسٹی،دامن کوہ،پیر سوھاوہ،شاہ اللہ دتہ،ایف نائن پارک،کے ایف سی،میکڈونلڈ، راجہ بازار،ٹیکسلا میوزیم،کھنڈرات،شنگریلا،سیاچن،چولستان،گوادر، بلوچستان، کراچی، لاھور،قصور، لائلپور،ھرن مینار، مینار پاکستان یہ سب دیکھنے جاوں اپنے لئے مجھے اب احساس ھوتا ھے سب لوگوں کو دکھا دیا خود دیکھا ھی نہیں۔ گجرات کی فروٹ چارٹ،ریگل کے گول گھپے،بٹ کڑاھی،دال والی ٹکیاں،سجی،روش،دم پخت،افغانی پلاو،نمکین گوشت، ھارڈیز کے برگر،کراچی کی بریانی نہاری حلیم اچار گوشت سب کھانا ھے اور کسی کو بتائے بغیر ملتان کا حلوہ گوجرانوالہ کا پتیسہ بھی کھانا ھے اور لاھور بابا کی قلفی ۔ مزہ کرنا ھے ۔ امید ھے میں یہ اپنے خواب پورے کر سکوں گا اور کسی کو نہیں بتاوں گا کیا کیا دیکھا جب کوئی پوچھے گا کہہ دوں گا بھول گیا کہاں گیا تھا کیا کھایا تھا۔ بس چھپ چھپ کر روتے ھوئے نمازیں پڑھنے کو بہت دل کرتا ھے پتہ نہیں کب آسانی ھوگی سجدے کی اجازت ملے گی۔ خواب پورے ھوں گے۔ خواب برائے فروخت نہیں ھیں وہ تصویریں تھی سب بیچ دیں۔

Prev بےبی
Next باپ

Comments are closed.