خورشید 

خورشید
تحریر محمد اظہر حفیظ

زندگی میں جب بھی کوئی امتحان دینے نکلے امی جی دروازے میں کھڑی ھو کر دعا دیتیں،
روشن تیرے ضمیر کا ایسا چراغ ھو
خورشید سے بھی بڑھ کر تیرا دماغ ھو
ھمیشہ سوچتا یار یہ خورشید کون ھےجو امی جی کہتی ھیں اس سے بھی بڑھ کر تیرا دماغ ھو تو پتہ چلا ماموں اسلم کے بڑے بیٹے کا، نام خورشید ھے اور گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کرتا ھے بڑا سوچا یہ کتنا سمجھدار بندہ ھے جو امی اس کی مثال دعا میں بھی دیتی ھیں ایک دن امی جی سے کہہ دیا امی جی آپ فکر نہ کریں میں بھی گاڑیوں کا کام سیکھ کر خورشید بھائی سے بڑا کاریگر بنوں گا مسکرا، کے کہنے لگیں وہ کیوں امی جی خود ھی تو، کہتی ھیں
روشن تیرے ضمیر کا ایسا چراغ ھو
خورشید سے بھی بڑھ کر تیرا دماغ ھو
اس لیے اوئے پگلے یہ خورشید وہ خورشید نہیں ھے اب تجھے کیا سمجھاؤں، اور میں نے بھی اس خورشید، کی تلاش شروع کر دی، میاں بیکرز کے مالک پھوپھو، کے، بیٹے میاں خورشید اب ذھن میں ایا، یہی ھوگا مختلف، بیکریوں کے چکر لگائے سوچتا رھتا میں کیسی بیکری بناؤں امی جی اج کل کدھر گھومتے رھتے ھو، میٹرک کے پیپر سر، پر ھیں امی اب مجھے وہ خورشید مل گیا جو بہت ذھین ھے وہ کونسا بیٹے پھوپھو شفیقاں کا بیٹا میاں خورشید جس، کی بیکری ھے میں بھی بیکری بناؤں گا امی کی انکھیں بھر آئیں کہنے لگی میں سورج کی بات، کرتی ھوں تم زمیں پر ڈھونڈتے ھو وقت گزرتا رھا اور میں خورشید، کو ڈھونڈتا، رھا 1998 خبریں گروپ کے ماھانہ میگزین “اور” میں نوکری کر لی، بطور ڈیزائنر اور فوٹوگرافر جاوید چوھدری ایڈیٹر تھے عمران اسٹنٹ اور خورشید ھمارا افس بوائے بہت ھی مطمئن اور ھوشیار، لڑکا ھر وقت دستیاب، میں آواز دیتا خورشید جی صاب جی اوئے کتنا پڑھے ھو کچھ وی نئی صاحب، شادی ھوگئی جی صاب کتنے بچے ھیں پانچ صاب رھتے کدھر ھو گولڑہ شریف صاب آتے جاتے کیسے، ھو اپنی سائیکل ھے جناب روزانہ آئی نائن سائیکل پر آتے ھو، جی صاب نعت پڑھتے پڑھتے پہنچ، جاتا، ھوں بڑی بات ھے اس طرح وقتاً فوقتا میں سوال کرتا، رھتا اور وہ جواب دیتا رھتا اور سوچتا رھتا یہ امی جی کے خورشید پڑھائی میں اتنے پیچھے ھیں اور وہ ھمیں ھر امتحان میں اسکا نام لیکر دعا دیتی ھیں، یہ خورشید سارا دن ساتھ ھوتا سوال جواب چلتے رھتے ایک دن پوچھا خورشید، تنخواہ کتنی ھے 1600روپے صاب جی ایک دھچکہ لگا اس میں گزارا کیسے ھوتا ھے کیا مطلب جی بڑا شکر اے جی اللے نا، بچے مدرسے پڑھنے، سبزیاں گھرے نیاں، مجھی(بھینس) گھرے نی اپنا گھر آے سائیکل اپنی 1600 سیدھی بچت اے صاب جی بچت، بہت صابر انسان ھے ليکن میری کوشش تھی اسکو اگے بڑھنا چاھیے میں نے اس کو چھ ماہ لگا کر پیسٹنگ سکھا دی اور روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں اٹھ ھزار، پر پیسٹر لگوا دیا کچھ عرصہ کے بعد جب روزنامہ ایکسپریس اسلام اباد شروع ھوا حاجی اعظم اپنے ساتھ خورشید کو بھی لے، گئے اب خورشید، کی تنخواہ چودہ ھزار ھوگئی تھی میرا شکریہ ادا کرنے آیا، سر جی سب تساں نی وجہ تو اے میرے خرچے او ای نے تے میں پنج پنج مرلے دے دو پلاٹ کدھے اچھا مبارک ھو خورشید بہت خوشی ھوئی ایک دن ایکسپریس حاجی اعظم کو فون کیا گپ شپ کے بعد خورشید کا پوچھا تو عجیب خبر سننے کو، ملی اس نے اخبار ست استعفیٰ دے دیا ھے اور اب گھر ھی ھوتا ھے بہت دکھ ھوا اپنی محنت ضائع ھوتی محسوس ھوئی اور پھر خورشید دماغ سے اوجھل ھوگیا ایک دن سیکٹر جی ٹین کی باھر والی روڈ پر جارھا تھا تو خورشید نظر آگیا، آواز دی او خورشید اور خورشید اسی طرح محبت سے آکر صاب جی اگر اجازت دیو تے استاد جی اکھ لیا کراں جو مرضی آکھ اے کی تھیٹر لایا ھویا اے نوکری کیوں چھوڑ دی، استاد جی اے پیسہ فساد دی جڑ اے نہ ھوے تے فساد ھووے پہلے ایک رشتے دار ناراض ھویا فر ایک دن سالے پیسے منگ لئے میں اکھیا ماڑے کول جو تھے پلاٹ لے لیے ھن جی پنج پلاٹ نے ماڑے کول، او جد رسیا تے تہاڈی پرجھائی وی روس کے میکے چلی گئی مینوں کجھ سمجھ نہیں ایا میں نوکری چھوڑ دیتی اسی دا سارا رولا سی نہ پیسے ھون نہ کوئی منگے استاد جی تساں تے پتہ اے بچے ماڑے مدرسے جلُنے، سبزیاں گھرے نیاں مجھی گھرے نے سائیکل ماڑے کول چھت اپنی ماڑا کی خرچہ، اللہ نہ شکر اے ھن سارے راضی نے نہ میرے کول ھے نے تے نہ کوئی منگدا اے، زندگی سوکھی ھو گئی اے، مینوں تے پتہ چل گیا خورشید کون اے جسدی میری ماں دعا کردی سی خورشید صبر دا ناں اے خورشید شکر دا ناں اے

میری بیٹیاں جب امتحان دینے جاتی ھیں تو، میں بھی بس یہی دعا دیتا ھوں

روشن تیرے ضمیر کا ایسا چراغ ھو
خورشید سے بھی بڑھ کر تیرا دماغ ھو

Prev تین اظہر
Next اکیلا

Comments are closed.