زندگی کے خواب

زندگی کے خواب

تحریر محمد اظہر حفیظ

جب سے میں نے ھوش سنبھالا ھے خواب دیکھتا ھوں۔ میں نے جنت بھی دیکھی ھے اور دوزخ بھی۔ میرے خواب مختلف ھیں لوگوں سے مجھے لگتا ھے میں خواب نہیں دیکھ رھا بلکہ خواب میں جی رھا ھوں۔ زندگی میں ماں باپ مرجاتے ھیں بہن بھائی بچھڑ جاتے ھیں دوست چھوڑ جاتے ھیں لیکن میرے خواب کیا کمال ھوتے ھیں اس میں سب زندہ ھیں اور اکثر ملاقات بھی رھتی ھے کئی خواب تو میں جاگتے میں بھی دیکھتا ھوں جو میں دیکھنا چاھتا ھوں۔ سب دیکھتا ھوں جب مجھے کوئی پیار کرتا ھے پیار دیتا ھے اسے میں زندگی سمجھتا ھوں اور جب کوئی میرا دل دکھاتا ھے تکلیف دیتا ھے خواب سمجھ کر مسکرا دیتا ھوں میں جب بھی روتا ھوں سب میں بیٹھ کر روتا ھوں خواب سمجھتا ھوں زندگی میں کبھی نہیں رویا میرا خیال ھے جن کے دل سیپ کے ھوتے ھیں انکی آنکھوں میں ھی سچے موتی ھوتے ھیں یہ پتھر دلوں کو نصیب نہیں ھوتے انکی تو آنکھیں بھی پتھرا جاتی ھیں جیسے مردے کی آنکھوں کاساتھ دماغ چھوڑ دیتا ھے اور وہ پتھرا جاتی ھیں میں نے کئی مردے چلتے پھرتے دیکھے اور انکی آنکھیں پتھرائی ھوئیں ۔
میں پھولوں کے کھلنے کے خواب دیکھتا ھوں اصل پھولوں کے انکی خوشبو مجھے مہکاتی ھے میں انکو دیکھتا ھوں توڑتا نہیں چھوتا نہیں اور پھر رنگ برنگی تتلیاں ان پر امڈ آتی ھیں سرسبز باغ کھیلتے بچے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں مجھے میرے خواب زندہ رکھنے میں مدد دیتی ھیں میں عجیب انسان ھوں میں نے کبھی کاغذ کے پھولوں کو کھلتے اور خوشبو دیتے نہیں دیکھا نہ خواب میں نہ اصل میں لیکن ایک خوبی انکی بھی ھے وہ مرجھاتے نہیں۔ سوچتا ھوں سب تعلق اور رشتے کاغذی پھول جیسے ھونے چاھیں بے شک خوشبو نہ دیں پر مرجھائیں بھی نہیں۔ لیکن وہ تو اصل پھولوں کی طرح ھماری زندگی میں کھلتے ھیں چار سو خوشبو بکھیرتے ھیں افسوس مگر مرجھا جاتے ھیں کل ایک 10 اگست 1996 کا ایک جنم دن مبارک کا کارڈ نکلا اس میں سے ایک گلاب کا سرخ پھول سوکھا ھوا نکلا کمال ھے بائیس سال گزرنے پر پھول موجود ھے خواب موجود ھیں لیکن خوشبو اور وہ انسان ساتھ نہیں۔ مجھے کوئی دکھ نہیں خوشبو اور اس انسان کے جانے کا دکھ تو بس یہ ھے ایک پھول کی زندگی کیوں ضائع ھوئی اور وہ مرجھا گیا سوکھ گیا ۔
ھوتا جو یہ کاغذی پھول جذبات سے عاری نہ اسکو فرق پڑتا نہ مجھے۔
میرا دل ھے اس سال میری سالگرہ کوئی نہ منائے ناجانے کتنے پھولوں کی جان بخشی جائے اور وہ مرجھانے سے بچ جائیں شاید میں بھی۔
میں خواب دیکھتا ھوں ان میں رھتا ھوں انکی تصویریں بناتا ھوں انکو لکھتا ھوں انکو سناتا ھوں گنگناتا ھوں سوچ سوچ شرماتا ھوں یہ خواب ھیں ایک دیوانے کے۔
کبھی چلتے چلتے نانگا پربت سر کر لیتا ھوں پھر تھک کر بیٹھ جاتا ھوں کبھی اڑنگ کیل چلا جاتا ھوں کبھی شنگریلا کبھی سیاچن گھومتا ھی رھتا ھوں کبھی جاگتے ھوئے کبھی سوتے ھوئے میں خوابوں کا آوارہ گرد ھوں کبھی ھنزہ کبھی فورٹ منرو کبھی تھرپارکر کبھی نورمحل پیلس میں رات گزارتا ھوں اور کبھی سوات وائٹ پیلس میں میں نہیں تھکتا خواب میں سانس نہیں پھولتا لیکن عجیب بات ھے پسینہ آجاتا ھے ھنسی بھی آتی ھے اور جاگنے پر رونا بھی اپنی بے بسی پر ۔
کبھی سمندر کنارے کبھی دریا کنارے کبھی کشتی میں کبھی جہاز میں گھومتا رھتا ھوں جیتا رھتا ھوں۔
دیوار چین کی سیڑھیاں کیبل کار ھائے تھک گیا واہ واہ ٹھنڈا پانی یخ مزہ آگیا ھائے امی جی پینتیس کلو کا کیمرہ بیگ تھک گیا چلو بیٹھ جاتا ھوں کہیں پیچھے نہ رہ جاوں پھر چل پڑتا ھوں یہ کہاں پہنچ گیا آج سلیمو لیک سنگیانگ چین۔ واہ جی واہ اس کے تو رنگ بدل رھے ھیں کیا جگہ ھے صاف پانی۔
ارومچی چین میں مسلمان واہ واہ۔
یہ جہاز کدھر لے جا رھا ھے
اوئے ھوئے آج تو دل رنجیدہ ھوگیا یہ سامنے تو مدینہ ھے مسجد نبوی ھے میرے نصیب دیکھو میں اسکے نزدیک جارھا ھوں روتا جارھا ھوں اس کے اندر داخل ھوگیا سبحان اللہ یہ سنہری ستون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یادیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگیا بلندی پر میرا نصیب آگیا میں وھاں سے نکلا مدینے کی پاک گلیوں میں ادب سے احترام سے چل رھا ھوں کوئی بے ادبی نہ ھوجائے کجھوروں والی مارکیٹ آگئی بازار آگیا مڑ مڑ دیکھ رھا ھوں اپنی قسمت کو اور مدینے کو روئے جا رھا ھوں پہلا منظر ھے جو دھندلا بھی حسین ترین ھے نہ آنکھیں صاف کرنا چاھتا ھوں نہ چشمہ شاید صاف دیکھنے کی تاب نہ لا سکوں تصویرنہیں بنانا چاھتا بس اسی طرح دیکھنا چاھتا ھوں خواب میں رھنا چاھتا ھوں مدینہ میں جینا اور مرنا چاھتا ھوں یہی خواب ھے یہی زندگی

Prev شٹ اپ کال
Next چودہ اگست 2018

Comments are closed.