شوگر اور میں

تحریر محمد اظہر حفیظ

جب سے ہوش سنبھالا امی جی کو سائنسی تجربات کرتے ھی پایا، امی ایک استاد تھیں اور گاؤں کے سکول کی ھیڈ مسٹرس تھیں، میں سمجھتا تھا شائد امی جی سائنسدان ھیں اور روزانہ صبح وہ سپرٹ لیمپ روشن کیئے اس پر ایک ٹیوب میں کچھ کیمیکل ڈالے گرم کر رھی ھوتی تھیں کچھ دیر میں اس کیمیکل کا رنگ بدل کر کبھی نیلا کبھی سبز کبھی سبزی مائل نیلا ھو جاتا اور امی دوائی کی مقدار بدل دیتیں، بڑا دلچسپ سلسلہ تھا ھر دفعہ مختلف رنگ ھوتا اور امی جی کو سارا گاؤں آپا جی کہتا تھا اکثر خواتین آکر پوچھتیں آپا جی شوگر دا کی حال اے تو، امی کہتیں آج کل ٹھیک ھے میاں جی (نانا ابو)کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے شوگر تھوڑی تیز ھے سمجھ نہیں آتی تھی طبیعت نانا جی کی خراب ھے شوگر امی جی کی تیز ھے یہ کیا سلسلہ ھے یہ کیسی محبت ھے، اس انوکھی محبت کے اتار چڑھاؤ بہت دیکھے،جب اپنے ماں باپ بچوں کی پریشانیاں دیکھی تو یہ انوکھی محبت سمجھ آئی، آپا جی طبیعت دی سناؤ بس باجی الیکشن سر تے نے ڈیوٹی اے لڑائی جھگڑے بہت نے ہر پاسے ڈانگ سوٹے لے کے لوکی پھر دے نے تے شوگر کتھوں قابو آوے، اس بیماری تے میری جان لے کے چھڈنی اے بہتری پرھیز کرئی دی اے پر پریشانی اس دی جان نہیں چھڈدی، پتہ چلا امی جی صبح صبح جو تجربہ کرتی ھیں اصل میں وہ اپنی شوگر چیک کرتی ھیں امی بہت پیدل چلتی تھیں پڑھی لکھی خاتون تھیں اور ھمیشہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھا وزن نہ بڑھ جائے، پاؤں خشک نہ ھو جائیں، ویزلین روزانه پاؤں کو لگانا پیدل چلنا انکا معمول تھا یہ باتیں ستر کی دھائی کے شروع کی ہیں گاؤں کی خواتین آکر امی جی کو مختلف باتیں سناتیں آپا جی اسدے چھوٹے چھوٹے بچے سن مر گئی وچاری بعد وچ پتہ چلا شوگر سی، اور کئی دفعہ بعد میں امی ہمیں گلے لگا کر رو پڑھتیں، تائی جان امی جی سےشہناز کی گل اے کی ھویا امی آپا جی جے مینوں کجھ ھوگیا تے انناں دا کی بنوں، تائی کہتی اس طرح دی گل نہ کریا کر اللہ اپنی حفاظت وچ رکھے،
دوسری طرف ابا جی نے بھی جہاں شوگر کا اشتہار دیکھا اس کو امی جی پر آزمایا ضرور، میاں صاحب سنیا . انڈیا وچوں برگد دی لکڑ دا بنیا گلاس ملدا اے اس دا پانی پین نال شوگر دا علاج اے، ماما جی حمید سکاؤٹنگ کرتے تھے اور ابا جی کی کزن کے میاں تھے وہ سکاؤٹنگ کے سلسلے میں انڈیا گئے ابا جی بھائی حمید جننے دا وی آوے تسی او گلاس لیانا ضرور اے انکی مہربانی وہ انڈیا سے گلاس لے آئے امی روزانہ رات کو اس میں پانی ڈال کر رکھ دیتیں اور صبح نہار منہ پی لیتیں پر فرق کوئی نہ پڑا، کئی سال پیتی رھیں، پھر کوئی صاحب میاں صاحب جامن بہت ودھیا چیز اے آپا جی نوں او کھوایا، کرو اب امی ساری گرمیاں جامن کھاتیں، میاں صاحب اصل فائدہ اس دی گٹک وچ اے اگر جامن دی گٹک تے کریلے پیس کے خشک کر لو بڑی ودھیا چیز اے اب امی جامن کھا لیتیں اور گٹک خشک کر لیتیں، پھر انکو پیس کر اس پاوڈر کو روزانہ کھاتیں، میاں صاحب کریلے چھل کے اسدا جوس بہت ودھیا اے امی جی کی شامت اور ابا جی کی محبت امی نے کریلوں کا جوس بھی کوشش کیا ھر دفعہ امی جی کو ھر نسخے کے بعد ہسپتال میں داخل ھونا پڑھتا کبھی شوگر کنٹرول میں نہ رھتی کبھی امی، کبھی افشار خون بس سے باھر ھو جاتا اور کبھی شوگر کم ھو جاتی پر علاج وہ گولی ھی تھی جو ڈاکٹر نے دی باوی سب باتیں ھی تھیں یہ سلسلہ شب و روز چلتا رھا اور ھم سب امی جی کے ساتھ ساتھ شوگر سے جنگ لڑتے رھے، ھماری شوگر بھی اکثر چیک ھوتی اب ھوا یہ کہ ابا جی کو بھی یہ عارضہ لاحق ہوگیا اور انھوں نے میٹھے کے شوق کے ساتھ ساتھ جامن اور کریلے کے پاؤڈر کو جاری رکھا، اکثر سموسے جلیبیاں لینے جاتے تو وھیں دوکان پر کھڑے کھڑے مناسب جلیبیاں کھا جاتے کہہ گھر جا، کر یہ سب کھانے نہیں دیں گے اور تولنے پر اس کو زیادہ پیسے دیتے یار جیڑھیاں کھا لیاں اے اس دے پیسے نے، اور گھر آکر امی کو یار چوھدری جلیبی لیا ایک تے کھا لین دے اور میں کہتا امی جی ابو دوکان پر کافی کھا کر آئے ھیں یار شکائت نہ لایا کر، اور یہ سلسلہ چلتا رھا سن دوہزار کے شروع میں میں نے پی ٹی وی جائن کر لیا، کافی سٹریس والی نوکری تھی کئی کئی راتیں جاگنا کام زیادہ تھا ٹیم کم، اسی دوران پی ٹی وی اکیڈمی میں پڑھانہ شروع کر دیا ایک دن شاھد اقبال صاحب نے بلایا یار توں اے کی کیتیا ایم ڈی صاحب نوں تے اپنے صاحب نوں کلاس وچ برا بھلا کیا اے، صاحب بڑے ناراض نے او تینوں نوکری توں فارغ کر دیں گے، پر بھائی جان میں نے ایسا کچھ نہیں کیا آپ باقی کلاس سے پوچھ لیں کل چوبیس طالبعلم ھیں، یار کسی نے صاحب نوں خود دسیا اے پر سر جی اسطرح دی کوئی گل نہیں، جو وی اے میں شوکت نوں اتے بلا لینا اپنے کمرے وچ تسی صاحب کولوں معافی منگ لو، کس گل دی معافی، جد کیتا ھی کچھ نہیں، یار میری من لے تیری نوکری چلی جانی، اور میں گیا سر میں معافی چاھتا ھوں لیکن یہ سب میں نے نہیں کیا وقت ثابت کر دے گا ویسے آپ باقی لوگوں سے بھی پوچھ لیں، آپنی زبان کے کتے کو باندھ کر رکھو یہ تمھیں نوکری نہیں کرنے دےگا سر یہ الزام ھے جھوٹ ھے مجھے کچھ نہیں پتہ میرے پاس گواہ ھیں، اچھا، سر میں معافی چاھتا ھوں، اور میں واپس آپنے آفس آگیا یہ کیا نیا ھی کام شرور پیاس لگے تو چار پانچ گلا پی جاؤں اور پیشاب آئے تو روکنے کا نام ھی نہیں شام تک طبعیت بہت خراب ھوگئ پانی پی اور پیشاب کر کر تھک گیا تو پمز ہسپتال چلاگیا انھوں نے شوگر چیک کی تو چار سو پچانوے تھی ڈاکٹر ریاض نارو سٹریس کس چیز کا ھے یار تم ابھی بہت چھوٹے ھو ساری بات سنادی کہنے لگے یار ظلم ھوگیا اچھا ڈائنل اور گلوکوفیج سٹارٹ کرو واک کرو سٹریس سے بچو،
کچھ دنوں بعد دفتر سے گھر آیا تو دفتر کے ساتھی علیم صاحب ھمارے گھر بیٹھے تھے ابا جی پاس جان کر خوشی ھوئی انکی والدہ امی جی کی شاگرد تھیں اور ملنے آئیں ھوئیں تھیں، جب میں آگیا تو ابا جی اپنے کمرے میں چلے گئے اور اب میں اور علیم بھائی گپ شپ کرنے لگ گئے، علیم بھائی اظہر صاحب عامر آفریدی نال کی مسلئہ اے کجھ وی نہیں، اصل وچ ایک دن میں سیف اللہ شاھد تے عامر آفریدی میریٹ ھوٹل دے پیچھے کھوکھے تے روٹی کھا رھے سی عامر آفریدی سیف صاحب آج اظہر صاحب کلاس وچ ایم ڈی تے صاحب نوں بہت برا بھلا کیا، سیف صاحب روٹی وچ ھی چھڈی تے تہاڈے صاحب کول چلے گئے دسن، میں آپ کو جانتا نہیں تھا لیکن پوچھ بیٹھا عامر ھوا کیا، عامر ھنسا اے ھن نوکری کر کر وکھائے، صاحب کناں دا کچا اے تے اددی نوکری گئی، پر مسلئہ کی اے، کلاس میں دو مانیٹر بننے تھے ایک ٹی وی کا ملازم اور ایک باھر سے آئے ھوئے طلباء میں سے، ایک میرا دل تھا میں بن جاؤں میں نے انکو بتایا تھا پر اس نے کہا طلباء جس کو بنا دیں میں کیسے بنا، سکتا ھوں اور طلباء نے زعیم کو بنا دیا میری بہت بیستی ھوئی ھے اب یہ بھگتے، اور میں نے اس جھوٹ کو، بہت بھگتا، ایک دن کوئٹہ ٹریننگ تھی گیسٹ ہاوٴس رات انسولین لگانے لگا تو سیف اللہ شاھد ساتھ تھے اننی چھوٹی عمرے شوگر جناب کیسے، میں نے کہہ دیا اس کے آپ ذمہ دار ھیں اگر آپ کو میری شکائت آئی تھی مجھ سے، تو، کنفرم کر لیتے، اور ساری بات بتا دی کہنے لگے یار اس کے لیئے معزرت چاھتا ھوں پر، تسی بڑے خوش نصیب ھو بیماری گناہ دھوتی ھے اور آپ کے گناہ دھلنے کا وسیلہ میں بنا، یہ خودساختہ نیک لوگوں کی منطق بھی اپنی ھی ھوتیں ھیں، میں نے عرض کیا کونسی بیماری پسند، کریں گے اپنے گناہ دھونے کے لیے اظہر صاحب بد، دعاواں تے نہ دیو سیف صاحب جب بھی انسولین لگاتا ھوں آپکو اور عامر آفریدی کو ضرور یاد کرتا ھوں، جب صاحب کو پوری بات بتائی کہنے لگے پرانی باتوں کو بھول جاؤ ،لیکن کیا کروں آب میں اس شوگر، کا سترہ سال سے مریض ھوں، شروع کے دن تھے باجی ثمینہ میری بڑی بہن کا فون آیا، باؤ فیصل آباد گٹی ایک بابا عرق دم کر کے دیتا ھے ھر اتوار، کو جانا ھوتا، ھے میری ساس اور نندوئی دونوں کی شوگر ٹھیک ھو گئی ٹیسٹ بھی نارمل ھیں، باجی تینوں تے پتہ اے اسدا کوئی علاج نہیں، میری من لے جی اچھا اب میں اور طاھر بھائی ھر اتوار جاتے اور چار لیٹر عرق گلاب عرق مکھو اور ایک عرق کوئی اور تھا لانا شروع کر دیا سانس سے حقے کے پانی کی بدبو آتی پر انسولین بابا جی نے بند کر دی اور بس عرق پیو کچھ ھفتے عرق پیے خالہ سلمی چاچا جی سے اے دونوں اپنا علاج کروا رھے نے مینوں پوچھیا وی نہیں میں ان کے پاس چلا گیا خالہ جی سانوں آرام آ جاوے تہانوں وی لے جاواں گے لال نال ھی لے جایا کرو، انسولین اور ٹسٹ بند تھے ورنہ دم اثر نہیں کرے گا پیشاب رکتا ھی نہیں تھا باتھ میں ھی چھپ کر شوگر چیک کی پانچ سو کچھ تھی فورا انسولین لگائی اور رات گئے تک دوڑتا رھا اور واک کرتا رھا پھر چیک کی اور شوگر ڈھائی سو تھی شکر کیا اور سو گیا، اگل دن بہن کا فون آیا باؤ او میری ساس کو پھر شوگر ھوگئی ھے اور منظور صاحب کی تو کنٹرول ھی نہیں ھو رھی، بس کیا کہتا بتا دیا اس حالت میں چھوڑا ھے عرق پینا، ایک دن ایک بندے کا فون آیا جی گٹی والے بابا جی نے آپکا نمبر دیا ھے ماشاءاللہ آپکی شوگر ٹھیک ھوئی ھے انکے دم سے تو اسکو کہا بچ میری جان دوائی کھا، امی اور ابو دوا پر تھے اور میں انسولین پر، تنویر بھائی کا فون آیا اظہر صاحب آئی ٹین ون میں ایک سائینسدان رھتا ھے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری سے ریٹائرڈ ھوا ھے اس نے شوگر کی دوا ایجاد کر لی ھے اس سے دوائی لیں میں نے سنی ان سنی کر دی، وہ روزانہ میری بیوی سے اظہر صاحب گئے ایسے پاس ایک دن مجبوراً چلا گیا سوچا اس کے پاس رش ھی بہت ھوگا فون کیا وقت لیا اور چلا گیا، ایک مخبوط الحواس انسان جی بیٹیھیں، آپ میری دوائی استعمال کریں گے آپکی ٹانگ پر ایک زخم بنے گا اور شوگر اس کر راستے خارج ھو جائے گی اور پھر زخم ٹھیک ھو جائے گا اور شوگر بھی، یہ دوا ھے پندرہ سو دے دیں، دے دئے جناب، اصل میں انسولین سور کے جسم سے لی جاتی ھے اور بطور مسلمان سائنسدان یہ بات میری برداشت سے باھر تھی اور جب مجھے خود شوگر ہوئی تو میں نے یہ دوا بنا ڈالی سر بہت بڑی بات ھے اب مجھے شوگر نہیں ھے، اچھا ماشاء اللہ آپ اس دوائی کو عام کیوں نہیں کرتے، جناب میں چاھتا ھوں اس کو اعزاز میرے پاس رھے پہلے ھی آپ دیکھیں ایٹم بمب میں نے بنایا نام ڈاکٹر عبدالقدیر کا ھوگیا، غوری میزائل میں نے بنایا نام کسی اور کا ھوگیا، اب کوئی چیز تو میرے نام سے جاری ھو، جی اچھی بات ھے، میں ان سے اجازت لے کر باھر نکلا وہ میرے پیچھے دروازے میں ھی کھڑے تھے میں نے دوا. والی شیشی انکے سامنے والے گھر کی چھت پر پھینکی اور پاگل ھی اوئے کی آواز لگا کر سہی سلامت گھر واپس آگیا، کچھ عرصہ گزرا معظم بھائی کے والد امریکہ سے آئے ائرپورٹ سے میں نے ھی لیا یار تیری شوگر دا کی حال اے، جی شکر ھے اللہ پاک کا، یار بڑا ودھیا نسخہ ھتھ لگا اے، بادام، گڑ مار بوٹی تے چار بوٹیاں تے کوجا مسری برابر مقدار وچ پیس کے روزانہ ایک چمچ کھانا اے جی انکل، بنالی دوا پہلا چمجہ کھایا سارا دن منہ کڑوا کچھ دن برداشت کیا پر پاؤں خشک، ایک حکیم دوست سے پوچھا کہنے لگے گڑ مار بوٹی خشک گرم ھے بلڈ پریشر کردے گی پرھیز کریں انکل کو جا کر دوا دی آپ کھائیں ویسے بدلہ کس چیز کا لیا ھے اتنی کڑوی دوا، انکل تہاڈا کی خیال اے معظم نوں میں خراب کیتا اے بہت ھنسے کہنے لگے یار تو بڑا شرارتی ایں، معظم آپی خراب ھویا تسی کی کرنا اے،امی باقی زندگی انسولین پر رھیں اور اللہ پاس، چلی گیئں، ابا جی دوائی، جامن اور کریلے کا پاوڈر کھاتے رھے اللہ پاس چلے گئے اور میں ریگولر انسولین لگاتا ھوں تندرست ھوں پر اب کسی کا مشورہ سننا بھی پسند نہیں کرتا ظفر بھائی کی بھی بہت سی اتجادات ھیں کبھی باڑھ کے پتے اور کبھی کچھ اب انسولین سیٹ کرواتے پھر رھے ھیں، میرا خیال ھے یہ ھی بہتر علاج ھے، لیکن اس کی مقدار وہی لگانی چاھیے جو ڈاکٹر صاحب نے بتائی ھے کچھ لوگ ھر کھانے کر ساتھ جتنا میٹھا کھایا انسولین کی مقدار میں ترمیم کرتے رھتے ھیں جیسے یہ شوگر نہیں پاکستان کا قانون ھو۔

Prev پانچ، بڑوں کی سر زمین کینیا - تیسری اور آخری قسط
Next چھوٹی لائن کیسے ھوئی بڑی

Comments are closed.