عکس

عکس
تحریر محمد اظہر حفیظ

عکس کتنے اتر گئے مجھ میں
پھر نجانے کدھر گئےمجھ میں
ممتاز نوجوان شاعر عمار اقبال صاحب کا کلام ابھی سن رھا تھا اور مجھے وہ سب عکس نظر آنا شروع ھوگئے جو اترے گئے مجھ میں ۔ اور میں ان عکسوں کو دوبارہ سے دیکھنے لگا مجھے ابھی بھی وہ پہلا عکس یاد ھے جو کھجور کے درخت کا جناح باغ میں بنایا تھا اس کا عکس ابھی تک میرے ذھن میں آباد ھے ۔ جناح باغ سے ایک عجیب انسیت تھی روزانہ وھاں جانا اور اس کا ایک ایک درخت میرا دوست تھا پرندے مجھے پہچانتے تھے۔ میری آمد پر چہچہاتے تھے۔ موٹر سائیکل پارکنگ والے سے لیکر کینٹین تک سب ھی واقف تھے۔ لائبریری والے بھی مجھے جانتے تھے پر میں نے جو علم حاصل کیا وہ اس باغ سے حاصل کیا۔ وھاں بیٹھنے والے سبھی جوڑے بھی مجھے جانتے تھے کئی دفعہ سلام دعا بھی ھوجاتی تھی۔ وہ مجھے تنگ نہیں کرتے تھے میں ان کو تنگ نہیں کرتا تھا ۔
زندگی بہت مزے کی تھی جناح باغ کی بارہ دری بھی میری دوست تھی اور اس میں آنے والے سب شاعر اور عاشق بھی میرے دوست تھے وہ جو بھی شعر وھاں دیواروں پر لکھتے میں بار بار پڑھ انکو یاد کر لیتا۔ وھاں ایک فلم کیلئے سیٹ لگا تاج محل کا اور بہت عرصہ لگا رھا۔ اسی بہانے تاج محل سے بھی تعلقات استوار ھوگئے۔ کرکٹ گراونڈ بہت شاندار تھی کسی باھر کے ملک کا ھی سین لگتا تھا۔ میں اس کو اکثر چھپ چھپ کر دیکھتا تھا کہ کہیں میری نظر ھی نہ لگ جائے۔
لان ٹینس کے گراونڈ اور اس کے کھلاڑی بھی میرے دوست تھے ماسوائے اس اکیلی لڑکی کے جو اپنے کوچ کے ساتھ پریکٹس کرنے جناح باغ آتی تھی۔ میری اکثر شامیں اکیلے ھی وھاں گزریں۔ مجھے آج بھی باغ جناح کی سیپرٹ چائے کی خوشبو نہیں بھولتی اور اس کی پچھلی طرف لارنس روڈ پر گول گپے والا پہلوان کیا بات ھے۔
وہ الٹی لٹکتی چمگاڈریں مجھے بھلی لگتیں تھیں اور سب پرندے میرے دوست تھے چار سال میں کبھی بھی کسی پرندے نے میرے اوپر کوئی ڈیزائن نہیں بنایا۔ ایک دن میں اپنے کھجور کے درخت سے ملنے گیا تو وہ وھاں نہیں تھا اس کو بہت تلاش کیا ساتھ والے درختوں سے بھی پوچھا کہ جناب یہاں جو اکلوتا کھجور کا درخت تھا وہ کدھر گیا خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہیں آیا۔ کچھ درختوں کے گلے لگ کر رویا بھی پر کسی نے کچھ نہ بتایا وہ کٹ چکا تھا۔ اور میں اب تک اسکے عکس کو اپنے اندر دیکھتا ھوں تو اداس ھوجاتا ھوں۔ پھر دھیان بٹانے کو بہت کوشش کی کہ باقی درختوں سے دوستی لگاوں پر نہیں لگا سکا دل اداس ھی رھا کبھی کبھی سوچتا ھوں شاید کھجور کے درخت سے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ھے اور اسی نسبت سے مجھے کھجور کے درخت اچھے لگتے ھیں۔
اسی ایک عکس کے دکھ میں میں نے جناح باغ جانا چھوڑ دیا آج پچیس سال اور چھ مہینے ھوگئے مجھے جناح باغ گئے ھوئے ۔ آج سوچتا ھوں کہ میں اس کو ھر وقت یاد کرتا ھوں پتہ نہیں وہ مجھے یاد کرتا بھی ھے کہ نہیں۔
کیونکہ اس کے عکس میرے اندر محفوظ ھیں اس کو تو شاید یاد بھی نہ ھو کہ میں کون ھوں۔
سنا ھے وھاں سب کچھ بدل گیا ھے۔ درخت، پرندے، گلہریاں، سڑکیں، پارکنگ، کینٹین، لائبریری۔ عاشق،جوڑے،لوگ
جناح باغ کو اندازہ ھی نہیں جو عکس میرے اندر محفوظ ھیں وہ نہیں بدل سکتے بےشک سب بدل جائیں ۔ ایک دفعہ کچھ سال پہلے فجر کے وقت جانے کا چانس ملا میں نے نئے عکس نہیں بنائے بس پرانوں کو ھی یاد کرتا رھا۔ ایک عجیب بات تھی گلہریاں وھی والی تھیں سب مجھے رک رک کر دیکھ رھیں تھیں اور جو میں کرکٹ گراونڈ کی طرف گیا تو اس کی پرشکوہ عمارت اورپچ بنانے والا رولر وہی تھا مجھے دیکھتے ھی مسکرا دیئے اور میں پھر چھپ کر اس کو دیکھنے لگا۔ کیونکہ میں خوبصورتی کے عکس محفوظ کرتا ھوں اپنے اندر ناکہ اس کو نظر لگاتا ھوں۔

Prev بارش
Next توجہ بانٹنے کے طریقے

Comments are closed.