ماں کے بیٹے

ماں کے بیٹے
تحریر محمد اظہر حفیظ

اپنی ماں کو کون گالی دے سکتا ھے۔ کونسی ماں ھے جو اپنے بیٹے کو گالی دینا سکھاتی ھے۔ ممکن نہیں ایک عورت کا بیٹا ھو اور عورت کو ھی گالی دے۔ دنیا میں آنے والے ھر بیٹے کی ماسوائے حضرت آدم علیہ السلام کے سب کی ماں ھوتی ھے۔
باپ کا احترام اپنی جگہ پر جو قدرومنزلت ماں کی بیان کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی، ماں کے قدموں تلے جنت ھے، بیٹی رحمت ھوتی ھے، تمام انبیاء کرام رضی اللہ تعالی عنہ اپنی ماں بہن بیٹیوں سے ھمیشہ احترام سے پیش آئے، میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی والدہ ماجدہ کو یاد کرنا ھماری ماوں کے ساتھ شفت سے پیش آنا گھر کے کام میں ساتھ کام کروانا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے لئے جو احترام بیان کیا گیا اس کے بعد کسی کی کیا مجال کہ وہ عورت کی شان میں گستاخی کرے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کا کئی سال پہلے ایک بیان سنا جس کا مفہوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے کسی کو ماں بہن کی گالی دینا خانہ کعبہ گرانے سے بڑا جرم ھے۔ تو پھر کیسے کوئی کسی عورت کو گالی دینے کا سوچ بھی سکتا ھے۔
کچھ ایسے دانشور حضرات جب گفتگو کرتے ھیں تو ان کا لب و لہجہ سن کر روح کانپ جاتی ھے، وہ حسن نثار صاحب ھوں، آفتاب اقبال صاحب ھوں، خلیل الرحمن قمر صاحب ھوں، ھارون الرشید صاحب ھوں یا پھر اوریا مقبول جان صاحب ھوں جب اپنی بات منوانے کیلئے بغیر دلیل کے اپنا لہجہ بلند کرتے ھیں تو پتہ چل جاتا ھے کہ انکا جواب ھلکا اور غیر منتقی ھے۔
عالم کا کیا کام بلند آواز میں بات کرنا گالی دینا، قہقہے لگانا۔
مجھے چیخنے چلانے والے عام مرد و عورت بھی پسند نہیں تو کوئی عالم یا عالمہ بھی ھو اور چیخ و پکار کرے میری سمجھ سے اس کا علم باھر ھوجاتا ھے۔
برداشت کا ماحول ختم ھوتا جا رھا ھے۔ مجھے آج میرے ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا کہ کم از کم آپ کو حلال اور حرام پر بات نہیں کرنی چاھیئے۔ میں اس وقت سے سوچ میں پڑا ھوا ھوں کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا وہ شاید بھول جائیں پر میں جستجو میں لگ گیا ھوں کہ ایسا کس بنیاد پر کہا گیا۔ اور مجھے حرام سے کیسے بچنا ھے اور حلال کی طرف کیسے آنا ھے۔
میں نے وہ جگہ تو مکہ میں دیکھی ھے جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اب ایسی جگہ بھی بنائی جائیں جہاں ماں بہن بیٹی کو گالی دینے والے کو بھی زندہ درگور کر دیا جائے۔ وہ بے شک میں خود ھوں یا پھر کوئی اور۔ لیکن مجھے ڈر ھے ایسے بدبخت کو شاید زمین بھی قبول کرے۔
آپ شجر سایہ دار ھیں یا پھلدار جھکنا آپ کی خوبصورتی ھے اور اکڑنا آپ کو سرو کا بوٹا بنا دے گا جو تیز ھوا کے آگے بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ طوفان تو بہت دور کی بات ھے۔
اشفاق احمد مرحوم فرماتےتھے کہ کچھ عورتوں سے بھی عورتوں کو پردہ کرنا چاھیئے، اور ایسی عورتیں جب میرے گھر آتی تھیں تو میں بانو (بانو قدسیہ صاحبہ) سے کہتا تھا پردہ کر لو۔ شاید اب ایسی عورتیں مردوں سے بھی زیادہ ھوگئیں ھیں۔ اب عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی پردہ کرنا پڑے گا۔ مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت پر پہلے سے زیادہ غور فکر کریں۔ کہ وہ کیا بن رھے ھیں، کیا بول رھے ھیں، کیسے بول رھے ھیں کیوں بول رھے ھیں۔ اچھے مائیں ھی اچھی نسل اور قوم دے سکتی ھیں، ماں تجھے سلام

Prev ڈسکس ھونا ھی کامیابی ھے
Next مارچ دوھزار بیس

Comments are closed.