میری گواھی یاد رکھنا

میری گواھی یاد رکھنا
تحریر محمد اظہر حفیظ

سفر کرنا اور تصویریں بنانا میرا جنون ھے آج پہلی دفعہ میں اپنے کچھ سفر شیئر کرنے جا رھا ھوں۔ جو کہ پہلے کبھی نہیں کئے، یہ سب میں نے خود دیکھا ھے مجھے بتایا نہیں گیا، گھر بیٹھ کر تنقید کرنا بہت آسان ھے کبھی نکلیں سیر کو وزیرستان، سیاچن تو اندازہ ھو، زندگی کیا ھے، میری پہلی فوٹو مینٹری سپاھی مقبول حسین شہید پرتھی، جس کے سلسلے میں میں بھمبر اور باغسر فورٹ گیا، تصویر کبھی سوچ کر نہیں لکھی جاسکتی اس کیلئے اس لوکیشن پرجانا پڑتا ھے، میں ان سب جگہوں پر گیا جہاں سے سپاھی مقبول حسین شہید کی کہانی کی وابستگی تھی، میں نے فوج کو انتہائی منظم پایا، یہ میرا پہلا پراجیکٹ تھا آئی ایس پی آر کے ساتھ مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب کام ھمیں بہت پہلے شروع کردینے چاھیں تھے، پر دیر آید درست آید، چھ ستمبر کا شو تھا جس کیلئے یہ محنت کی گئی، اگلے سال ھمیں لالک جان شہید نشان حیدر پر فوٹومینٹری کرنی تھی، ھم نے سفر کیا آسلام آباد سے بونجی جو گلگت سے پہلے آتا ھے کیونکہ وھاں سے لالک جان شہید نشان حیدر کی پوسٹنگ سیاچن ھوئی تھی، پھر ھم گلگت سے سکردو گئے اور سیاچن فوٹوگرافی کیلئے بذریعہ ھیلی کاپٹر پہنچ گئے، کچھ گھنٹے ھم نے کام کیا جہاں کئی کئی مہینے اور سال میرے جوانوں کی پوسٹنگ ھوتی ھے، گلیشیئر سے واپسی پر آکسیجن سلنڈر لگا کر واپس آنا ممکن ھوا کیونکہ میرا سانس بند ھورھا تھا، میرے ساتھ میرے ھی جیسے ایک انسان نے آکسیجن سلنڈر اٹھا رکھا تھا اور ساتھ میرا ھاتھ اس کے کندھے پر تھا دوسرا فوجی بھائی اپنے پاوں میرے سامنے رکھ رھا تھا کہ آپ میرے بوٹ پر پاوں رکھ کر چلیں آپ کو چلنے میں آسانی ھوگی، کیسے انسان ھیں یہ پاکستان کے فوجی بھی، اتنے ھمدرد اور شفیق، اگر زندہ گھر پہنچا تو ان دوستوں کی محنت اور اللہ کا کرم تھا ورنہ میں ذھنی طور پر مرنے کیلئے تیار تھا، پھر ھم لالک جان شہید نشان حیدر کے مزار پر بھی گئے انکے گاوں گئے بہترین انتظامات تھے، وہ فوٹو مینٹری بھی 6 ستمبر کو چل گئی، اگلے سال ھم نکل پڑے راجہ سوار حسین شہید نشان حیدر پر سٹوری کرنے، اس کیلئے ان کے مزار پر گوجر خان کے نذدیک گیے، ٹینک رینج میں گئے، ٹینک رینج میں جاکر اندازہ ھوا کہ گرمی کیا ھوتی ھے اور ٹینک میں سفر کرنا کیا ھوتا ھے، ٹارگٹ پر فائر کیسے ھوتا ھے، پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور اگلے سال ھم میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر پر سٹوری کرنے ان کے آبائی گاوں اور بی آر بی نہر پر بھی گئے اور ان سب چیزوں کو کیمرے میں محفوظ کیا، اب یہ سلسلہ چل نکلا اور ھم روانہ ھوگئے سوات سمائل اگین کیلئے سوات، اور میں نے سوات کو بحال ھوتے اور مسکراتے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بھی کیا، صورتحال کتنی خطرناک تھی یہ ھم بارہ فوٹوگرافرز ھی جان سکتے ھیں، جو وھاں کام کر رھے تھے، وھاں کے فوجی میڈیکل کیمپ، چیک پوسٹیں سب دیکھے، پھر مجھے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کام کرنے کا بھی موقع ملا اور میں نے جنڈولہ قلعہ میں بھی کئی دن گزارے اور چھوٹی عید بھی فوجی بھائیوں کے ساتھ کی، جس طرف بھی گیا پہلے فوجی بھائی اس طرف جاتا تھا کہ کوئی آئی ڈی نہ نصب ھو، پھر تسلی کرکے مجھے آنے کی اجازت دیتے تھے کہ جناب علاقہ کلیئر ھے، مجھے یاد ھے ھے صبح سویرے فوجی گاڑیاں سڑکوں کو چیک کرتی تھیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو چلنے کی اجازت ملتی تھی، وھاں سپورٹس فیسٹیول بھی ساتھ کئے اور وھاں پر بحالی کیلئےقائم کئے گئے، مرغی خانے، فش فارم، گائے اور بکریوں کے فارم بھی دیکھے، اور دوبارہ آباد کاری کا عمل بھی دیکھا اور اس کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بھی کیا، پھر میں کھجوری فورٹ میں بھی ٹھہرا اور میں نے فوج کے سارے انتظامات اور بحالی کے عمل کو بھی دیکھا، میں نے فوج کا نرم رویہ بھی دیکھا اور سخت رویہ بھی دیکھا، میں گرفتار شدہ خود کش بمباروں سے بھی ملا اور انکی تربیت اور بحالی کا کام بھی دیکھا، میں نے نسٹ یونیورسٹی کے زیر اھتمام تمام ادارے بھی دیکھے اور انکی فوٹوگرافی بھی کی پھر میں نے نئی قائم شدہ نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ساتھ بھی کام کیا اور اس سے وابستہ ادارے بھی دیکھے، میں نے غازی ائیر بیس پر ھیلی کاپٹرز کی فوٹوگرافی کی اور انکے انتظام بھی دیکھے، میں نے قلعہ بالاحصار کے اندر چار ماہ ایف سی میڈیا سیل کی مکمل تربیت کی، کئی خودکش حملے میرے سامنے ھوئے، لوگوں کو شہید ھوتے دیکھا، میں نے فوجیوں کو اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے بھی دیکھا، اور شہید فوجیوں کی بہادر بیگمات، والدین اور بچوں کو بھی شہادت پر مسکراتے دیکھا، میں کئی بار رویا یہ بھی تو انسان ھیں ان کے بھی جذبات ھیں، میں نے چودہ توپوں کی سلامی بھی دیکھی اور 23 مارچ شو کی فوٹوگرافی بھی کی، افواج پاکستان کا نظم و ضبط اور طاقت کا مظاھرہ بھی دیکھا۔ آرمی میوزیم راولپنڈی میں بیشتر میری بنائی ھوئی تصاویر آویزاں ھیں،
میں ایک فوٹوگرافر ھوں، مجھے شک ھے کہ مجھے عام لوگوں سے زیادہ نظر آتا ھے اس سارے عمل میں بارھا موت کو نزدیک سے دیکھا، شاید میرے اس عمر میں اتنے سفید بالوں کی ایک وجہ یہ بھی ھو، میں نے پاکستانی فوج کو محب وطن اور جانثار دیکھا، ھر محکمے میں اچھے اور برے لوگ ھوتے ھیں یہاں بھی ھونگے لیکن ھم چند بروں کی وجہ سے لاکھوں اچھوں کی دل آزاری کر رھے ھیں۔ فوج کے مختلف شعبے ھیں ھر کوئی اپنی اپنی جگہ پر بہترین کام کررھا ھے، ھم اعلی درجے کا جنگی اسلحہ بنارھے ھیں، ٹینک بنا رھے ھیں، جنگی جہاز بنا رھے ھیں، میزائل بنا رھے ھیں، الحمدللہ ھم ایٹمی قوت ھیں۔
آئی ایس پی آر تھوڑا دیر سے سامنے آیا، اس کو فوج کے قیام کے ساتھ ھی سامنے آجانا چاھیئے تھا، کیونکہ اب جو جنگیں ھورھی ھیں اس میں الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بہت عمل دخل ھے، اقوام عالم کو بتانا ضروری ھے کہ ھم کیا کر رھے ھیں اور ھمارے دشمن کیا کر رھے ھیں،
اس کیلئے میڈیا ھی اصل ھتھیار ھے،
جہاں بات ھوگی انٹیلی جینس کی تو جاسوسوں کو گرفتار بھی ھماری ھی ایجنسیاں کرتی ھیں اور دھشت گردوں کے حملے بھی ناکام ھماری افواج ھی کرتی ھیں، کچھ ماہ پہلے دشمن کے جہاز گرا کر اپنی جنگی مہارت کا ثبوت بھی پاکستانی افواج نے ھی دیا تھا اس کیلئے کوئی دوسرا مدد کیلئے نہیں آیا تھا، فوجی ماھرین کو انکا کام کرنے دیں، وہ گانے بنائیں، جنگی مشقیں کریں، میزائل ٹیسٹ کریں یا پھر دشمن کے جہاز گرائیں انکو پتہ ھے یہ سب کب اور کیسے کرنا ھے، آپ سوشل میڈیا پر ضرور تشریف لائیں، برے کو برا کہیں اچھے کو اچھا کہیں، لیکن یہ خیال کریں کہ آپکی عقلمندانہ سوشل میڈیا پوسٹ سے کہیں افواج پاکستان کی جنگی پوسٹ کا نقصان تو نہیں ھورھا،
پاکستان زندہ باد،
افواج پاکستان پائندہ باد

Prev محبت
Next نہ جانےکب

Comments are closed.