میں دیہاتی تھا تو اچھا تھا

میں دیہاتی تھا تو اچھا تھا
تحریر محمد اظہر حفیظ

میری زندگی کے تقریبا گیارہ سال گاوں میں گزرے ۔ جذبات اور احساسات کی سچائی شاید وھیں تک تھی۔
سب ھی بڑے مرد ماما جی،تایا جی، چاچا جی ھوتے تھے۔ سب ھی بڑی عورتیں خالہ جی، پھوپھی جی، ماں سی ھوتیں تھیں۔
مجھے نہیں یاد ان گیارہ سالوں میں کسی سے اونچی آواز میں بات کی ھو یا چلتے ھوئے بزرگ سے آگے نکلنے کی کوشش کی ھو۔ بیٹھے ھوئے کوسلام کئے بغیر گزر جانے کا کوئی بھی واقعہ ذھن میں موجود ھو۔ جب ھوش سنبھالا فجر کی اذان کے ساتھ مسجد جانا قرآن مجید ناظرہ پڑھنا دعائیں یاد کرنا سنانا معمول تھا۔
سکول جانا، واپس آنا بڑوں کا احترام کرنا اللہ سے ڈرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کرنا بھی معمول تھا۔
میری ماں مجھے روز اسلامی کہانیاں سناتیں تھی کربلا کا واقعہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فتوحات، عدل، قبول اسلام، حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی انکی اذان کی ادائیگی،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی سخاوت، شہادت، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری، فتوحات، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ، امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا بچپن سے شہادت تک کا سفر سب سناتیں تھیں۔
اور دعائیں دیتیں تھیں۔ پتہ نہیں کس بات کا مجھ پر کیسے اور کیا اثر ھوا۔
پہلے تو امی جی ساتھ انکے سکول جاتے تھے وھاں سب باجیاں ھمارا بہت خیال رکھتیں تھیں پھر ھمارا داخلہ ھوگیا لڑکوں کے سکول میں وھاں بہت اچھے استاد ملے ۔ امی کا سکول گاوں کے درمیان میں ھوتا تھا چند گلیاں گزر کر پہنچ جاتے تھے مجھے بس سکول کے پاس ایک گردوارہ تھا جس کی عمارت بہت اچھی لگتی تھی سکول میں ردی والے کمرے کے بارے میں مشہور تھا یہاں چڑیلیں رھتی ھیں میں کن آکھیوں سے اسکی کھڑکی سے ڈرتے ڈرتے جھانکتا رھتا تھا پر کچھ نظر نہیں آیا۔
ھمارا لڑکوں کا سکول گورنمنٹ پرائمری سکول 258 ر۔ب پھرالہ گاوں سے باھر تھا۔ بڑا مزا آتا تھا کھیتوں سے گزر کر جانا اورواپس آنا مٹی کے ڈھیر یا توڑی کے ڈھیر بھی مجھے نانگا پربت سے بھی بلند نظر آتے تھے۔ ان پر چڑھنا اتنا مشکل تھا جتنا آج فیری میڈوز پر چڑھنا۔ برگد کے درخت مجھے اچھے تو لگتے تھے پر اس کے گھنے سائے سے ڈر لگتا تھا۔ پیپل کا درخت شاید قد اور سائز میں برابر ھوں پر انکا سایہ کم گھنا ھوتا ھے۔ وھی مجھے پسند تھے۔ آم کا درخت میں نے کئی دفعہ لگائے پر پھل دار پہلا درخت چچا رشید کے کھیتوں میں ھی دیکھا۔ میں اور طارق بھائی مختلف رنگ کے پھولوں والی بوٹی گھر میں لگاتے تھے اس کے پھول مجھے بہت پسند تھے اب وہ کم ھی نظر آتی ھے میں کئی کئی گھنٹے ان پھولوں سے کھیلتا رھتا تھا۔
کھیل بھی سادہ ھی تھے گلی ڈنڈا، پیٹھو گرم ، والی بال، بیڈمینٹن، باندر کلا، پھر کرکٹ آئی اور سب کھیلوں کو کھا گئی۔
پڑھائی سادہ تھی دو سے دس تک پہاڑے، چودہ نکات، کچھ سورتیں،بلبل کا بچہ، میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر، انگریزی شاید اس وقت تک ایجاد نہیں ھوئی تھی یا پھر ھم تک پہنچی نہیں تھی۔ اللہ نے محفوظ رکھا ھوا تھا اس بلا سے۔ کوئی دھوکہ فریب نہیں تھا ۔ تبت کریم اور تبت کا ھی پوڈر بہترین خوشبویں ھوتی تھیں۔ گرمیوں میں پریکلی ھیٹ پاوڈر گھر میں آجاتا جس سے بہت ٹھنڈ پڑجاتی تھی ۔ سگریٹ ایمبیسی سادہ اور فلٹر والا ھوتا تھا مجھے کے ٹو پسند تھا کیونکہ اس پر پہاڑ کی تصویر ھوتی تھی۔ چھوٹا سا گھر تھا بڑے دل تھے سب خوشی خوشی رھتے تھے۔ نہ رشتوں میں فریب تھا نہ وعدوں میں۔
انڈیا پر غصہ جب بھی اندراگاندھی کی تصویر مل جاتی چھتر پریڈ کرکے غصہ نکال لیتے۔ جنگیں ھماری پیدائش سے پہلے ھوچکیں تھیں ھم امن پسند تھے اور امن پسند ھی رھے۔ کھالے چھوٹے چھوٹے تھے پھر بھی پھلانگے نہیں جاتے تھے ۔ ضرورتیں کم تھی آمدن بھی کم تھی پر زندگی خوشحال تھی۔ سب ضرورتیں وقت پر پوری ھوجاتیں تھیں۔ چینی ڈپو سے مل جاتی تھی میٹھا پانی بہشتی ڈال جاتا تھا، گوشت ماما جی نصیر لا دیتے تھے،نماز حافظ بشیر احمد صاحب پڑھا دیتے تھے، سبزی بابا نیامت دے جاتا تھا۔ گندم چکی سے پسوا لیتے تھے،دوائی ڈاکٹر اسلم دے دیتا تھا، سائیکل بہترین سواری تھی۔ ٹاھلی کا درخت بہت بھلا مانس لگتا۔اس کے پتے اور درخت کی چھال مجھے بہت خوبصورت لگتی تھی۔ کیکر کے کبھی کانٹے نظر نہیں آئے اس کی پھلیاں میٹھی لگتیں تھیں، شلجم، مولی، گاجر کا اپنا سواد تھا، ایک پاو گوشت میں بہت برکت تھی،دیسی گھی لگی روٹی پر شکر کیا مزا تھا۔ روٹی اور مکھن پر چینی ڈال کر کھانا دنیا کے سب کھانوں سے مزیدار تھا۔ جھوٹ بولنا نہیں آتا تھا۔گالی شاید چاچا رحمت علی ھی دیتا تھا۔سادگی اتنی تھی شام کے کسی پہر کوئی شرارت سے بھی اذان دے دے تو کئی لوگ روزہ کھول لیتے تھے۔ سب الگ الگ گھروں میں ساتھ ساتھ رھتے تھے۔ گاوں میں کہیں کوئی فوتگی ھوجائے چالیس دن ٹی وی،ریڈیو نہیں لگاتے تھے۔ الف لیلی اور وارث جیسے ڈرامے تھے۔ اخبار نوائے وقت ھی ھوتا تھا اس کو کوئی ایک بزرگ ھی سارا دن پڑھتا رھتا تھا ھماری جرآت نہیں تھی مانگنے کی۔ کہ ھم نے بھی پڑھنا ھے۔ اسی طرح اچھے دن گزر گئے اور ھم سے شدید غلطی ھوئی ھم شہر آگئے۔
ھم تین بہن بھائی تھے،دو بھائی ایک بہن۔ اب ھمارے ماشاءاللہ دس بچے ھیں افسوس سب شہری ھیں۔ سچ کہوں ان میں اب ھم نہیں ھیں۔ اب اپنے دیہات یا گھر جاوں وہ مجھے نہیں پہچانتے، میں اپنے گھر کو یاد کراتا ھوں،اپنے گاوں کو یاد کراتا ھوں پر وہ مجھے نہیں پہچانتے شاید ناراض ھیں۔ بے وفاوں کے ساتھ ھمیشہ ایسا ھی ھوتا ھے۔ میں اپنے گاوں سے شرمندہ ھوں۔

Prev عقیدت
Next میرے بچو

Comments are closed.