میں ربّ نال دکھڑے پھولدا، جے بندہ ہندا . . .

میں ربّ نال دکھڑے پھولدا، جے بندہ ہندا . . .
تحریر محمد اظہر حفیظ

افضل ساحر میرے پنڈ دا جوان اے تے بڑا وڈا شاعر اے۔ رب سوھنا اسنوں مزید ترقیاں تے دانش عطا کرے۔ 
میرا بڑی واری دل کیتا کہ رب نال بیٹھ کے اپنے سارے دکھڑے پھولاں پر فر سمجھ آئی اے تے میرا حق ھی نہیں اسدے واسطے بندہ ھونا بڑا ضروری اے تے میں ٹہریا ڈنگر بے زبان۔
میں زندگی میں کبھی بھی کسی کو اپنی بات نہیں سمجھا پایا ۔ کسی کو میرے الفاظ کی تیز ادائیگی کی وجہ سے میری زبان پسند نہیں آتی اور کئی تو اشرف المخلوقات ایسے ھیں جو میں بات کر رھا ھوتا ھوں وہ مجھے خاموش سمجھ کر دوسرے سے بات شروع کر دیتے ھیں۔ مجھے اندازہ ھوجاتا ھے کہ میں کتنی دلچسپ گفتگو کر رھا ھوں یا کتنا باعزت ھوں کہ کوئی میری بات سنے اور پھر میں بھی دوبارہ گفتگو نہیں کرتا اور محسوس کرتا ھوں کہ میں آھستہ آھستہ بے زبان ھوتا جارھا ھوں۔ میری ھر سوچ ھر بات قابل اعتراض ھے۔ اور دن بہ دن زیادہ قابل اعتراض ھوتی جاری ھے ۔ مجھے کبھی لگتا ھے کہ میں پاکستان تحریک انصاف بنتا جا رھا ھوں کچھ اثر ھی نہیں کرتا اور میں ایک نیا جانور بن رھا ھوں انصافی ٹائیگر۔ کبھی میں اپنے آپ کو مسلم لیگ کا شیر سمجھنے لگتا ھوں سوچتا ھوں پنجرے میں ھی بند ھوجاوں ۔ اور اندر بیٹھ کر اپنی بدمعاشی دکھاوں۔ کبھی خود کو شہید سمجھتا ھوں کہ پیپلزپارٹی کی طرح اپنا مزار بنواوں اور میری باقیات حکومت کریں۔ کبھی میں سوچتا ھوں درگاہ بنا لوں بچوں کے عیش ھو جائیں گے کبھی سوچتا ھوں چیف جسٹس ھوجاوں ڈیم بناوں بڑے بڑے ریت کے پھر پاوں کی ٹھوکر سے گرا دوں ناراض ھو جاوں جاو میں نہیں کھیلتا۔ 
عجیب ھماری عوام ھے جو پیٹرول پر ریلیف ملا ھے اس کا ذکر کوئی نہیں بس حج حج کری جارھے ھیں۔ ڈالر مہنگا ھو رھا ھے ریال مہنگا ھو رھا ھے۔ حکومت کیا کرے۔ 
ھم لوگوں کو تنقید کے علاوہ آتا ھی کیا ھے جب بڑے بھائیوں کی طرف سے بھی حکم ھے کہ مثبت سوچیں تو ھماری جرات دیکھو پھر بھی منفی ھی سوچتے ھیں۔
عجب ڈنگر قسم کے لوگ ھیں جن کو حکومت کی بات سمجھ ھی نہیں آتی ۔ میرے گھر کا گیس کا بل پچھلے مہینے 3200 روپے تھا اس مہینے ماشااللہ 29800 روپے آیا ھے اللہ کی قسم ملکی ترقی دیکھ کر انکھیں تر ھوگیئں وہ تو شکر ھے نیئر وحید راوت صاحب کا بل ایک لاکھ ایک ھزار آیا اور انھوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا دل باغ باغ ھوگیا ورنہ میں تو سوچ سوچ تھک گیا تھا جس سے ادھار لیکر بل دیا چلو عزت بچ گئی اب نیئر کیا کرے گا کس سے ادھار لے گا کیونکہ جمع کرنے کا شوق اسکو بھی نہیں ھے ۔ اللہ آسانیاں کرے ویسے سوئی گیس کا محکمہ ھے بہت اچھا انہوں نے بیس ھزار سے زیادہ بل کو قسطوں میں وصول کرنے کا بھی انتظام کردیا ھے وہ بھی بلا سود ۔ بقول نیئر وحید راوت ھمارے گھر سے سورج کو کنکشن دیا گیا ھے میرا تو پھر ھاسا نکل گیا۔ سوچ کر جون میں تو بل ایک کروڑ سے بھی اوپر آئے گا کیونکہ سورج پر گیس کی کھپت زیادہ ھوتی ھے ۔ 
نیئر وحید راوت میرا بھائی ھے دوست ھے پر معذرت یار بل اپنا اپنا ادھار لیکر ادا کرو ۔ 
رب دی قسمے میں 19 وے گریڈ کا ملازم ھوں۔ یہ 29000 روپے گیس کا بل میرے بجٹ سے باھر ھے۔ ابھی تو کبھی گیس آتی ھے اور کبھی نہیں روز صبح گیزر 5 بجے دوبارہ چلاتے ھیں کہ رات کو گیس لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند ھوجاتا ھے۔ اگر پورا مہینہ گیس آجاتی تو کیا ھوتا۔
شکریہ اس انصاف کا۔
گیس تو آجکل ھر دوسرے انسان کو ھورھی ھے ڈر ھے حکومت اس پر میٹر اور بل نہ جاری کر دیں۔ اگر عثمان بزدار وسیم اکرم ھوسکدا اے تے فر ھن تے کجھ وی ھوسکدا اے۔
میرے گناہ میری عمر تو زیادہ ھوگئے نے شاید اس دی اے ھی سزا اے۔ کہ میرے خرچے وی میری آمدن تو زیادہ ھوگئے نے۔ 
ھون سوچدا واں آمدن وداواں، خرچے کٹاواں یا فر نوکری ھور کراں، کجھ سمجھ نہیں آندی کی کراں۔ 
بجلی کٹوا دیاں، گیس کٹوا دیاں، تے سولر پینل چھت تے لاواں سولر گیزر سولر چولھے لاوں ایک نئی دنیا بناوں ایک نیا پاکستان پر اس کیلئے تو دس لاکھ چاھیئں اور قرضہ لیکر جب میں لگا لوں گا تو انشاءاللہ اس پر بھی ڈیوٹی اور ٹیکس لگ جائے گا کیونکہ سورج کونسا میرے ابا جی کا ھے دھوپ بھی سرکار کی اور سورج بھی سرکار کا۔ ڈیوٹی بھی سرکار کی اور انکم ٹیکس بھی سرکار کا ۔ ھم ٹھہرے عوامی جانور یا پھر عمومی جانور جو بہتر سمجھیں کہہ لیں۔ یہ کیسا ڈالر ھے جس نے مقامی پیدا ھونے والی گیس بھی مہنگی کردی۔ اوئے ظالمو حج کی سبسڈی گیس میں ڈال دو۔ اس کے بارے تو کوئی فتوی بھی نہیں ھے گیس تو اسلام آنے کے بہت بعد دریافت ھوئی۔ اب کچھ سیانے جغادری فرمائیں گے پھکی تو بہت پرانی ایجاد ھے ۔ اللہ والیو کولہے کی گیس اور چولہے کی گیس میں بہت فرق ھوتا ھے۔ 
ساری رات جاگتا ھوں چپ رھنے کی کوشش کرتا ھوں پھر بھی سسکی کی آواز نکل ھی جاتی ھے تو بیوی پوچھنا شروع کر دیتی ھے کیا بات ھے ھوا کیا ھے۔ کیوں رو رھے ھو ۔ کبھی کہتا ھوں کچھ بھی تو نہیں کبھی کہتا ھوں ماں باپ یاد آگئے کبھی کہتا ھوں دفتر کی پریشانی ھے اب کیا بتاوں نئے پاکستان کو رو رھا ھوں ۔ ڈرتا ھوں کسی مقابلے کی نظر نہ ھو جاوں یا کسی غلط اطلاع کی۔ 
نیا پاکستان زندہ آباد

Prev میرے اندر کا بچہ
Next میں خیالوں میں رھتا ھوں

Comments are closed.