پانچ، بڑوں کی سر زمین کینیا – تیسری اور آخری قسط

تحریر فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ

(تیسری اور آخری قسط )

بھینسا، شیر، چیتا، ھاتھی، گینڈا ھیں وہ جانور جنکی وجہ سے کینیا کو پانچ بڑوں کی سرزمین کہا جاتا ھے،
تیسرا دن صبح پانچ بجے کا الارم لگایا اور نہا کر تیار ھوئے چھ بجے ناشتہ تھا سب ناشتہ کرکے ٹیریس کی طرف بھاگے شاید کل جیسا طلوع آفتاب ھو پر بادلوں کی وجہ سے کوئی سین ھی نہیں تھا سب جلد جیپ میں بیٹھے اور نکل پڑھے چیتے شیر اور شتر مرغ کی تلاش میں اور جناب ھرن جگہ جگہ پوز کر رھے تھے بڑے فنکار جانور ھیں جیسے آپ سوچتے ھیں یہ ویسا، ھی پوز کرنے لگتے تھے اللہ کی شان تھی سبحان اللہ،
آگر کوئی جانور یا پرندہ ھمارے سے ناراضگی ظاھر کرتا اور منہ دوسری طرف کر کے کھڑا ھو جاتا تو ایسے موقعہ پر آغا رضوان کی جوانی کام آتی اور ھم درخواست کرتے آغا سیٹی مار بس، آغا کی سیٹی شیر چیتا ھرن زیبرا زرافہ اور ھر، طرح کے چرند پرند، کو ھماری طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتی اس لیے جتنی بھی تصا ویر میں جانور یا پرندے کیمرہ میں دیکھ رھے ھیں اس کا سب کریڈٹ آغا صاحب کو جاتا ھے شکریہ آغا رضوان میری جان، ڈرائیو ر چیختا رہ جاتا پلیز سیٹی نہ بجائیں رینجرز آ جائے گی ھمیں کئی دفعہ مسائی مارا بھی کراچی محسوس، ھوا جہاں رینجرز سیٹی پر آتی ھے پر تین دن میں ایک دفعہ بھی رینجرز نہیں آئی شکر الحمدلله
جناب ھم کامیاب ھوگئے سامنے ایک حسین اور شاندار چیتا جارھا تھا کلک کلک کلک شروع اور وہ شان بے نیازی سے چل رھا، تھا تو خیال آیا یہ نیازی اتنے بے نیاز کیوں ھوتے ھیں اور وہ چلتا ھوا سامنے ایک قدرے بلند مٹی کے ڈھیر پر بیٹھ گیا، موج ھی کرا دی شکریہ چیتا پاجی،
سب مصروف تھے چاروں جیپس کے پندرہ سوار چیتے کی تصاویر بنا رھے تھے اور ڈرائیور گائیڈ کر رھے تھے جی چیتا فوکس،کر رھا،ھے شکار کو،تیار رھیں اور چیتا پھر چلنا شروع ھوگیا ھم کبھی ھرن دیکھیں کبھی زیبرا کبھی نیل گائے اوھو یار آغا یہ ھرن کا بچہ بہت چھوٹا ھے اچھا دیکھو سب زیبرا نے اپنے بچے کو درمیان میں کر لیا لیکن یہ کیا چیتا سامنے جا کر بیٹھ گیا چار گھنٹے انتظار کیا لیکن چیتا وھیں آرام فرماتے رھے ھم بھی ساتھ ساتھ پرندوں کی تصاویر بناتے رھے اور تنزانیہ کے باڈر کی طرف جیپس چل پڑی اور حسین ترین لینڈ سکیپ سامنے تھا شکر الحمدللہ شتر مرغ بھی نظر آگئے اور جناب یہاں گروپ فوٹو اور سیلفی کا ایک سیلاب امڈ آیا جیپس کی ترتیتب شعیب علی بھائی کے زمین پر لیٹ لیٹ کر درختوں کے ساتھ مختلف دوستوں کی تصاویر سب دوست ھی بہت اچھے تھے بہت خیال رکھنے والے اور کیئرنگ اور یوں ھم واپس ھو لیے اور راستے میں درخت پر،بیٹھا چیتا بھی نظر آگیا اور شیروں کی فیملی بھی بہت سی تصاویر بنی اور ھم ھوٹل پہنچ گئے دوپہر کا کھانا شام چار بجے کھا،کر کچھ آرام کیا اور شام کو واپس باھر نکل آئے کچھ دوست سوئمنگ،کرنے لگ گئے اور کچھ مساج پارلر پر پہنچ گئےاور میں ھوٹل کے گردونواح کا،جائزہ لینے نکل گیا کھانے کا وقت ھوا کھانا کھاتے ھوئے پھر وھی کل والے حبشی ڈرم بجاتے ھلا ھو ھا ھا جمبو جمبو کرتےآگئے
ھم سب ساتھ ھولیے سارا ھوٹل ساتھ شامل ھوگیا کیونکہ آج نہال ناصر صاحب کی سالگرہ تھی جناب سب نے ڈانس،کیا اور روایتی چھلانگیں بھی لگائیں کامران سلیم تو انکے لباس میں سب سے زیادہ چھلانگیں لگا کر سب سے زیادہ جنگلی ٹھرا بقول عاطف،سعید بھائی دوسرے نمبر پر زبیر قطب تھا تیسریے نمبر،پر شکیل شہزاد بھائی چوتھے نمبر پر آصف شیرازی بھائی،پانچویں نمبر پر شعیب بھائی باقی سب ساتھ ساتھ تھے کچھ دوست غائب تھے مساج پارلر پر اور جب کیک کٹ گیا تو سب مبارک باد دینے لگے تو نہال صاحب گویا ھوئے میری آج سالگرہ نہیں ھے کل یہ سب اچھا لگا تو ھم نے بھی یہ پروگرام کا بندوبست کرلیا. اس میں نائیکون سنگاپور اور یو اے ای نے بھی خوب حصہ لیا خاص طور پر مینجنگ ڈائریکٹر سنگا پور تو اچھل کود میں ھم سب کے شانہ بشانہ تھے پھر گروپ فوٹو،اور شیلڈ کی تقسیم شروع ھوئی سب کو یادگاری شیلڈ دی گئیں اور صبح ساڑھے پانچ بجے بمعہ سامان حاضری کا حکم تھا کمروں میں واپس آئے سامان پیک کرنا شروع کیا اور سب چیزیں سنبھال کر رکھیں اور سو گئے بہت تھکے ھوئے تھےصبح ساڑھے چار،بجے الارم بولا،تو پتہ چلا صبح ھوگئی ماموں،
وہی کام نہایا کپڑے تبدیل کئے سامان بند کیا دروازہ کھولا سامنے ایک افریقن بیگ پلیز اور،اس نے سامان ھوٹل کی لابی میں پہنچایا وھاں جہان ابھی سویا پڑا تھا ناشتہ ابھی لگا نہیں تھا اور میں نے ھوٹل استقبالیہ سے انسولیں کے کیری بیگ واپس لیے جو برف جمانے کے لیے انکے حوالے کیے تھی انسولیں محفوظ کی اور ناشتہ تیار،تھا ناشتہ کیا،اور سات بجے ھم نیروبی کے لیے روانہ ھو گئے راستے میں چیتا درخت پر تھا ھرن کھا رھا،تھا جیپ رکھ گئ اور بند بیگ کھولے گئے لیکن تصویر مس ھو گئی چیتا،ڈر کر بھاگ گیا، پھر کچھ ھاتھی آگئے انکی ھم نے تصاویر بنا لیں مسائی مارا کو اللہ حافظ کہا کچھ علاقائی سکلپچر خریدے اور نیروبی کی طرف،چل پڑے ڈرائیور بار،بار،اگر،رش ھوا تو ھم جہاز مس،کر،دیں گے راستے میں پھر بھی ایک دو دفعہ رکے عاطف سعید اور کامران سلیم کو ھم وھیں اللہ حافظ کہہ آئے تھے انکی واپسی یکم مارچ،کو،تھی اور آغا رضوان اور آصف شیرازی صاحب کو نیروبی اللہ حافظ کہا انکی واپسی چھبیس فروری کو،تھی باقی سب دوست نیروبی ائیر پورٹ داخل ھوئے تو ٹپو بھائی زبیر قطب اور کچھ ساتھی پیچے رہ گئے کیونکہ کراچی سے کاشف قادری بھائی جن کی طبعیت خراب تھی انکو بذریعہ جہاز نیروبی بھیجا گیا،تھا انکا انتظار تھا سب جب آگئے تو دوپہر کا کھانا کھا،کر دوبئی کے لیے روانگی تھی اور چھ گھنٹے کی آرام دہ فلائٹ میں دو فلمیں دیکھیں کچھ آرام کیا اور دبئی آگیا سنگاپور کے دوستوں کا اللہ حافظ کیا یہاں جوتے اتار بیلٹ اتار،جیکٹ اترا سامان چیک کروایا،اور بورڈنگ کارڈ،لیا اور چار گھنٹےکچھ شاپنگ کی اور کراچی کے لیے روانی ھوگئے سوتے سوتے کراچی آگیا کسٹم کلیرنس،ییلو بخار کے سرٹیفکیٹس دکھائے بورڈنگ پاس لیے اور چار گھنٹے کا تھکا دینے والا انتظار تھا زبیر قطب، نہال ناصر اور عثمان پرویز مغل کی لاھور کی فلائٹ تھی اور میری اسلام آباد کی سب ایک جگہ اکٹھے بیٹھ گئے چائے پی کچھ آرام کیا اور اپنے اپنے جہاز پر اپنے اپنے شہروں کو روانگی تھی سارا سفر ایمرٹس میں کیا، اور یہ پہلی فلائٹ پی آئی اے کی تھی ماشاءاللہ انکی ناکامی کا سبب بھی سمجھ آگیاپرانے جہاز برے حال میرا ھم عمر اور ھم مزاج عملہ سوئے کو تین دفعہ اٹھایا کچھ لیں گے میں نے فلحال معافی ھی لی کیوں کہ تقریباََ تیس گھنٹے سے سفر میں تھا، اور وہ مجھے نشے میں سمجھ رھی تھیں اسلا آباد آگیا ذیشان طارق قریشی لینے آئے ھوئے تھے انکا شکریہ اور یوں تقریباً دس ھزار کلو میٹر، کا سفر دس ھزار تصویروں کے ساتھ اختتام پذیر ھوا، شکریہ نائیکون شکریہ کیمٹرونکس شکریہ سب دوستوں کا، جو، ساتھ ھمسفر تھے یا ھم دعا تھے

Prev پانچ، بڑوں کی سر زمین کینیا-دوسری قسط
Next شوگر اور میں

Comments are closed.