پیمانہ

پیمانہ
تحریر محمد اظہر حفیظ

ھر چیز کو ماپنے کے مختلف پیمانے ھیں۔ سونا تولنے کا پیمانہ اور ھے دودھ تولنے کا پیمانہ اور ھے، فاصلہ ماپنے کا پیمانہ اور ھے، زمین ماپنے کا پیمانہ اور ھے، سردی گرمی ماپنے کا پیمانہ اور ھے، بارش ماپنے کا پیمانہ اور ھے زلزلہ ماپنے کا پیمانہ اور ھے، محبت ماپنے کا پیمانہ اور ھے، نفرت ماپنے کا پیمانہ اور ھے، زکوت ماپنے کا پیمانہ اور ھے صدقہ اور خیرات کا کوئی پیمانہ ھی نہیں۔
لیکن کچھ لوگ ایک ھی پیمانے پر سب کو ماپتے ھیں وہ چاھے دوست ھو یا دشمن، 
نفرت کرنی ھو یا محبت، عشق کرنا ھو یا معشوقی ۔ پڑھنا ھو یا پڑھانا۔ کچھ کا خیال ھے اللہ رحیم و کریم ھے کچھ کا خیال ھے وہ قہار ھے جبار ھے۔ کچھ کا خیال ھے اللہ ھے بس پیار ھی پیار۔
ھر کوئی اپنے پیمانے کو ھی درست سمجھتا ھے۔ جیسے کہ دین اسلام میں 72 فرقے ھیں اور ھر فرقہ اپنے فرقے کو ھی درست سمجھتا ھے اور اسی پر لگا ھوا ھے۔ ھر کوئی اپنے ناپ تول پر اپنے آپ کو جنت الفردوس کا حقدار سمجھتا ھے۔ اور باقی سب جہنمی۔
جیسے سب خوش ھیں خوش رھیں مجھے کیا۔ بے شک اللہ دلوں کے حال بہتر جانتے ھیں۔
لوگوں کے رویے بھی اب سب کے ساتھ ایک جیسے ھی ھیں ۔ بچوں کو نہیں پتہ ماں باپ سے کیسے گفتگو کرنی ھے اور ماں باپ کو نہیں پتہ بچوں سے کیسے گفتگو کرنی ھے۔ بیوی کو نہیں پتہ شوھر سے کیسے بات کرنی ھے اور شوھر کو نہیں پتہ بیوی سے کیسے بات کرنی ھے، ھر کوئی اپنے پیمانے کے حساب سے درست محسوس کر رھا ھے۔ بہن بھائی کیسے ایک دوسرے سے پیش آئیں۔ دوست اسی کو پکا اور گہرا دوست سمجھتے ھیں جس کو آسانی سے ماں بہن کی گالی دے سکیں پھر دوست اور دشمن کا کیا فرق ھوا۔ یہ کیسا تعلق ھے ۔ احترام،شفقت، عزت سب ختم ھوتے جارھے ھیں۔ اور ھم سمجھتے ھیں دنیا ترقی کر رھی ھے۔ ھمیں سوچنا ھوگا دیکھنا ھوگا کہ کس سے کیسے بات کی جائے۔ والدین کو والدین سمجھنا ھوگا اور اولاد کو اولاد۔ شاگرد کو شاگرد بننا ھوگا اور استاد کو استاد سب فاصلے ختم ھوتے جارھے ھیں۔ ھم گلوبل ویلج بنتے جارھے ھیں بہت خوش آئند بات ھے پر ھمیں خیال رکھنا ھوگا جو ھمارے سامنے بیٹھا ھے یا کھڑا ھے وہ کون ھے۔ سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کرنا ھوگا۔ عزت اور ذلت کو بھی الگ الگ کرنا ھوگا۔ محبت اور نفرت کو بھی الگ کرنا ھوگا ۔ حرام اور حلال کو بھی الگ کرنا ھوگا، یوٹرن کے بھی کچھ قواعد و ضوابط بنانے ھونگے۔ سیاست اور عبادت کے فرق کو سمجھنا ھوگا۔ جب کوئی پیٹرول 70 روپے میں بیچ کر چور تھا تو وہی پیٹرول جب 118 کا ھوگا تو کیسے سمجھیں کہ چوری کم ھوگئی۔ جب ڈالر کی قیمت 100 روپے تھی تو وہ مصنوعی تھی اب 160 ھے تو کیسے یقین کریں یہ درست ھے۔ جب سونا 48000 کو تولہ تھا وہ اصل سونا تھا یا اب جب وھی سونا 80000 کا تولہ ھے تو کیا یہ اصل سونا ھے ۔ ایک کار جو پہلے 21 لاکھ کی تھی اب 26 لاکھ کی ھے کار بھی بہتر نہیں ھوئی تو کس بات کے پانچ لاکھ اضافی دیں۔ شاید پہلے کار چوری کی تھی اب اصل ھے۔ پلاٹ ڈیڑھ کروڑ کا ھے 80 لاکھ کی اس پر تعمیر ھے مکان کی قیمت ڈیڑھ کروڑ ھی ھے کیونکہ آپ کو کس نے کہا تھا تعمیر کریں خالی پلاٹ میں ٹینٹ لگا کر رھتے۔ یہ کونسی معیشت ھے ۔ ھماری بیٹی کی سوشل میڈیا پر تصویر نہ لگے اور دوسروں کی بیٹیوں کی تصاویر پر خوبصورت لکھیں۔ کچھ تو سمجھائیں کوئی تو پیمانہ بنائیں جس سے آپ اور ھم سب تول سکیں۔

Prev جینا مرنا مشکل ھے 
Next ھمارا فخر

Comments are closed.