کشمیر

کشمیر
تحریر محمد اظہر حفیظ

فوٹوگرافی کے شوق نے مجھے سارا آزاد کشمیر دکھا دیا۔ میں اس کے عشق میں دن بدن مبتلا ھوتا چلا گیا مجھے جنت نظیر یا جنت جیسے کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا۔ اور اس کو سمجھنے کیلئے میں بار بار آزاد کشمیر گیا۔ کبھی میر پور آزاد کشمیر ،کبھی مظفر آباد ،کبھی نیلم ویلی،کبھی لیپہ ویلی،کبھی باغ،کبھی راولاکوٹ،کبھی بھمبر،کبھی باغ سر فورٹ، کبھی سدھن گلی، کبھی سمہانی سارا آزاد کشمیر گھومتا رھا تصویریں بناتا رھا اور اس کے سحر میں جکڑتا چلا گیا ایک سے بڑھ کر ایک جگہ تھی جب میں پہلی دفعہ کیل اور تاو بٹ گیا تو میں وھیں کا ھوکر رھا گیا پھر اگلی دفعہ میں اڑنگ کیل گیا تو مجھے آج تک یقین ھی نہیں آیا کہ یہ اصل دنیا ھے میں نے کبھی خواھش نہیں کی تھی جنت یا دوزخ بارے اس دن سوچا اگر جنت ایسی ھوگی تو میں پھر پوری کوشش کروں گا کہ جنت میں ھی جاوں، 
میں پہاڑوں ،آبشاروں، درختوں،دریا کے سحر سے ھی نہیں نکل سکا۔ پھر جب 2005 کا زلزلہ آیا تو اس نے آزاد کشمیر کو ھلا کر رکھ دیا بہت جانی اور مالی نقصان ھوا میں اس وقت میں بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ تھا اور آج بھی ھوں۔ مجھے پاکستان میں کبھی اتنی خوبصورتی نظر نہیں آئی تھی اور جو نیلم ویلی کے لوگوں کی سادگی اور بھولا پن اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں مختلف اداروں کیلئے ڈوکومینٹری فلمیں بنانے بھی گیا اور میں نے خوب کشمیر دیکھا سفید مکئی اور پن چکی کو بھی چلتے دیکھا۔ زلزے کی مصیبت کی گھڑی میں میں نے انکو مسکراتے بھی دیکھا۔ اسلام آباد کے ھسپتالوں میں شدید زخمی بچوں اور بڑوں کو بھی دیکھا جو ھمیشہ مسکرا کر ملتے تھے۔ یہ محبت جاری تھی کہ میری ملاقات میر الیاس سے ھوئی جو مقبوضہ کشمیر سے ھیں اور پڑھنے پاکستان آئے ھوئے ھیں ۔ فوٹوگرافی میں میرے شاگرد ھیں بعد میں ان سے دوستی ھوگئی۔ پھر ھم نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی میں ساتھ ساتھ پڑھاتے بھی رھے اور میں ان کو آزاد کشمیر کی خوبصورتی بیان کرتا تو وہ زیر لب مسکراتے رھتے۔ کبھی مجھے لگتا کہ شاید طنز کر رھے ھیں۔ ایک دن کہہ ھی دیا میر صاحب مجھے آپکی یہ عادت پسند نہیں ھے کہنے لگے سر جی آپ اگر ایک دفعہ مقبوضہ کشمیر کو دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ھو وہ کتنا خوبصورت ھے اسکا کا اس سے کوئی مقابلہ ھی نہیں۔ اس لئے مسکراتا ھوں کہ اصل خوبصورتی تو آپ نے ابھی تک دیکھی ھی نہیں۔ اب میری تشنگی بڑھنے لگی درخواست کی میر صاحب کیا میں ویزہ لیکر مقبوضہ کشمیر جا سکتا ھوں تو کہنے لگے استاد جی آپ کو تو لے جا سکتے ھیں پر آپکے کیمرے نہیں جاسکتے کیا مطلب۔ استاد جی میں وھاں کا رھائشی ھوں وہ مجھے کیمرہ نہیں لیجانے دیتے آپکو کہاں اجازت ملے گی۔ میرے دل میں خواھش جاگ اٹھی کہ میں مقبوضہ کشمیر میں ایک دن فوٹوگرافی کرنے ضرور جاوں گا جب اس کو بتایا تو میر صاحب کہنے لگے استاد جی پر کیسے۔ میں نے کہا میر صاحب فوٹوگرافی کیلئے آج تک جن جن جگہوں کی اللہ تعالی سے درخواست کی اس نے قبول کی، وہ سیاچن ھو،وہ گوادر ھو،وہ وزیرستان ھو،وہ زرغون ھو،وہ چولستان ھو،وہ تھرپارکر ھو،وہ فورٹ منرو ھو،وہ فیر میڈوز ھو،وہ خنجراب ھو،وہ شنگریلا ھو جو سوچا میرے اللہ نے پہنچا دیا،میرے الفاظ یاد رکھنا مقبوضہ کشمیر جس دن آزاد ھوگا وھاں جانے والا پہلا فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ ھوگا۔ اور کشمیر پاکستان ھوگا میر صاحب میرے عزم اور یقین کو دیکھ رھے تھے اور ان کو بتا دیا یہ کسی اور کیلئے ھو نہ ھو پرمیرے لیئے میری فوٹوگرافی کیلئے انشاءاللہ آزاد ھوگا اور میری زندگی میں ھی ھوگا۔ انشاءاللہ جلد ہی مجھے آئی ایس پی آر سے کال آئے گی ۔ کیا مصروفیت ھے آجکل کیوں کشمیر جانا ھے آپ کو کیسے پتہ چلا میں انتظار کر رھا تھا۔ جب کہیں ۔ دیکھیں زیادہ دن لگیں گے سارا کشمیر کور کرنا ھے ۔ حاضر جناب 
میں کل سے ٹریل فائیو پر جانا شروع کر رھا ھوں تاکہ وھاں پہاڑ چڑھنے میں دشواری نہ ھو۔ بس ایک کال کا انتظار ھے۔ سری نگر کونسا دور ھے۔ پھر میں اور کشمیر جنت نظیر ایک ھونگے اور ساتھ میر الیاس بھی ھوگا اور میری دوست مشال ملک بھی ھوگی۔ انکا یسین ملک صاحب کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی کروں گا۔ انشاءاللہ۔
کشمیر بنے گا پاکستان انشاءاللہ

Prev شکریہ
Next اللہ تعالی جی

Comments are closed.