یتیم اور مسکین

یتیم اور مسکین

تحریر محمد اظہر حفیظ

جب ھوش، سنبھالا پہلی بات جو سمجھ آئی وہ میری ماں کے الفاظ تھے اظہر ھمارے نبی صلی الله عليه وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے ھی انکے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ یتیم ھوگئے تھے امی یہ یتیم کیا ھوتا ھے جن کے والد وفات پا جائیں انکو یتیم کہتے ھیں جیسے تمھارے دادا نہیں ھیں تو، تمھارے ابو جی یتیم ھیں اچھا امی جی جیسے خالد افضل بھائی کے ابو بھی نہیں ھیں جی بیٹا وہ بھی یتیم ھیں، لیکن بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی، لیکن ذھن میں بیٹھ گئی اور جب پتہ چلا میرے نبی صلی الله عليه وسلم یتیموں کے ساتھ خاص شفقت فرماتے تھے میری انسیت بھی یتیم لوگوں سے بڑھنے لگی لیکن یتیمی ابھی سمجھ نہیں آئی تھی بہت سال پہلے تھوڑا ھوش آیا غالباً 1977 تھا ھم سب فیصل آباد چلے گئے غلام محمد آباد خالہ کے گھر پتہ چلا نانا جی کی طبعیت ٹھیک نہیں سب نانا جی کو میاں جی کہتے تھے اور ھم نے پہلی دفعہ امی اور ابو بلکہ سب کو ھی روتے دیکھا پتہ چلا میاں جی فوت ھو گئے اور ھمیں پتہ چلا انسان فوت بھی ھوتے ھیں اور سب روتے بھی ھیں بس پھر ھم نے ھر خوشی اور غم کے موقع پر امی جی کو میاں جی کو یاد کرکے روتے دیکھا، یقیناً میاں جی امی کا حوصلہ تھے، اور اب ھم فیصل آباد جانا کم ھو گئے نانی پہلے سے ھی نہیں تھیں، کچھ سال گزرے تو خالو میاں بشیر کا انتقال ہوگیا اور پتہ چلا انکے بچے بھی یتیم ھوگئے لیکن شائد ان میں سے زیادہ یتیم عابد بھائی اور منور باجی ھوئیں تھیں باقی بڑے تھے انکی شکل پر یتیمی نظر آتی تھی باقی چھپا جاتے تھےسکول اور کالج میں کسی کو مرجایا ھوا دیکھتے اور دوستوں سے پوچھتا یار اس کا کیا مسئلہ ھے تو کہتے تمھیں نہیں پتہ اسکے والد نہیں ھیں اور میں اس سے دوستی بھی کر لیتا اور خیال رکھنا بھی شروع کر دیتا، این سی اے میں آئے تو پہلی فوتگی جواد بشیر کے والد مرحوم کی تھی وہ بھی تین بہن بھائی تھے اور ھم بھی، میں رویا بھی بہت اور جواد کا خیال رکھنے لگا اب یہ سلسلہ ھی چل نکلا، جب بھائی کی شادی کی بھابی جو خالہ کی بیٹی ھیں انکے والد کا انتقال بہت پہلے ھوگیا تھا انہوں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا ھم سب انکا بہت خیال رکھتے ھیں کہہ انکو احساس نہ ھو کہ انکے والد نہیں ھیں اور پھر 1999 میں میری شادی ھوگئی پتہ چلا میری بیوی کے والد کا انتقال بہت پہلے ھوچکا ھے لیکن یہ بات میرے ذھن میں نہیں تھی میں نے کہا یار بھابھی کا بہت خیال رکھنا انکے والد نہیں ھیں رونے لگی میں نے کہا سوری کوئی غلط بات کر دی آنسو صاف کرتے ھوئے کہ میرے کونسے ھیں ،لیکن ھے بہت سمجھدار خاتون انھوں نے میرے والدین کی خدمت اپنے والدین کی طرح شروع کردی اور میرے والد صاحب میں سے اپنے والد تلاش کر لیے انکا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا کپڑے ھر چیز کا بہت خیال رکھا،ابو اکثر یار تیری بیوی میری بہت اچھی بیٹی اے میرا بڑا خیال رکھدی اے تو بھی اسکا بہت خیال رکھا کر،جی ابا جی امی ابو کی وہ لاڈلی بیٹی بن گئ،امی اس کے ھاتوں میں اپنے اللہ پاس گئیں اور اسکے بعد تو ابا جی کو اسنے باقی بچوں کی طرح بچہ سمجھ لیا، انکا ایسا خیال رکھنا میرے بس میں نہیں تھا جس دن ابا جی کا انتقال ھوا مجھے ایسا ھی لگا جیسے اسکے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ھو میں حوصلے میں تھا اور وہ بات پر رو دیتی اظہر ھم آج سے یتیم ھوگئے اور اس دن مجھے یتیمی سمجھ آگئی ،اور میں جو کہ اب یتیم اور مسکین ھو چکا تھا اپنے دل کو دلاسہ دیتا تھا میرے نبی صلی الله علیہ وسلم بھی تو یتیم اور مسکین تھے ھم ھو گئے تو کیا ھوا پھر مجھے یاد آتا ھے 2000میں پی ٹی وی جوائن کرلیا بہت ھی تندرست و توانا دوست بہترین دوست شاھد خورشید 2002 میں ھمیں چھوڑ کر چلے گئے ان کے گھر گیا دونوں بچے بہت چھوٹے تھے گلے لگا کر رو دیا انکو نہیں پتہ تھا کیا ھوگیا پوچھا میرے بیٹوں نے کیا لینا ھے باپ کی میت گھر پڑی ھے اور انکو نہیں پتہ اگے کیا مشکل زندگی ھے چاچو چاکلیٹ میں انکو ساتھ لیکر قریبی مارکیٹ چلا گیا اور روتا جا رھا تھا انکو اندازہ نہیں زندگی کی مشکلات کا تو چھوٹا بولا چاچو اپ تو بہت ھنستے تھا بابا ساتھ آپ بھی رو رھے ھیں میں نے کہا بیٹا اب رونا ھی رہ گیا ھنسنے والا چلا گیا اور وہ چاکلیٹ کھانے لگے اور میں دیوار سے لگ کر، رونے لگا، 2014 میں ایک بچہ عثمان جاوید بٹ میرے پاس فوٹوگرافی سیکھنے آیا اور مجھے اکثر پاپا جی کہ کر بلاتا پوچھا پتر کیا سین ھے کہنے لگا امی ابو نہیں ھیں سب بہن بھائیوں کی شادیاں ھو گئی ھیں بس اکیلا محسوس کرتا ھوں اس کی دل جوئی کی نہیں یار میں ھوں نا اس دن سے وہ میرا پتر اور میں اسکا پاپا جی،
اسی سال تقریباََ تین ماہ میں میرے دوست شکیل اعوان اور یوسف اعوان یتیم اور مسکین ھوگئے میری ھمت نہیں انکا سامنا کرنے کی چھپتا پھرتا ھوں مجھے لوگوں کے درمیان رونا اچھا نہیں لگتا پر رو دیتا ھوں، شکیل اعوان کہنے لگا باؤ جی ھن اسی ھر ایک نال بدمعاشی کرسکدے آں کس نوں شکایت لان گے لوکی اور پھر ھم دونوں رو دئے، میرے بہت محترم دوست سجاد بخاری صاحب کے والد فوت ھوئے ابھی تک ھمت نہیں انکا سامنا کرنے کی بہت پیار تھا انکا اپنے والد ساتھ بس اب تھک گیا ھوں یتیم نہیں دیکھے جاتے اللہ سب کے والدین کو سلامت رکھیں امین، جن کا انتقال ھوگیا ھے انکے لیے اگلے جہاں میں بہت سی آسانیاں کر دیں امین، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کریں امین، دو سال پہلے ایک بچی میرے پاس پڑھنے آئی جی بیٹا کیا کمی ھے زندگی میں جو اتنی ڈسٹرب رھتی ھو کچھ نہیں سر جی الحمدللہ، اچھا بیٹا امی ابو، سر انکے ساتھ ھی رھتی ھوں اچھا کچھ تو کم ھے میری بیٹی ایک دن رونے لگی سر زندگی بہت خوشحال تھی ھم انگلینڈ میں رھتے تھےمیری سالگرہ تھی ابو امی مجھے سرپرائز دینے کے لیے بہت بڑی پارٹی کرنا چاہ رھے تھے کسی فارم ھاوس پر لیکن راستے میں انکا ایکسیڈنٹ ھوگیا اور میں ایک ھی دن میں یتیم اور مسکین ھوگئی ویسے سر اپ بہت لکھتے ھیں کسی دن اپنی اور میری یتیمی اور مسکینی پر بھی لکھیں جی بیٹا بہت مشکل ھے کوشش کروں گا آج پتہ چلا روتے ھوئے لکھنا بہت مشکل ھے انکھیں دھندلا جاتی ھیں پر ایک یتیم اور مسکین کے لیے یہ روز مرہ کا کام ھے اکیلے رونا اور خود ھی چپ ھونا،

Prev خوش فہمی
Next لکی ایرانی سرکس اور ھم

Comments are closed.