یہ کیسی بہار آئی

یہ کیسی بہار آئی
تحریر محمد اظہر حفیظ

اپریل کا پہلا ھفتہ ھنزہ اور نادرن ایریاز میں خوبصورت ترین ھوتا ھے، سب ھی سیاح اپریل میں بہار دیکھنے اور نومبر میں خزاں دیکھنے ان علاقوں میں جاتے ھیں، 2017 میں طارق حمید سلیمانی صاحب نے ھنزہ میں خزاں کے نشے سے روشناس کرایا تھا جب بیٹھا تصویریں ایڈیٹ کر رھا تھا تو بیگم صاحبہ کہنے لگیں کہ میں نے بھی جانا ھے خزاں دیکھنے میں نے کہا اگلے سال اکتوبر تک ایک لاکھ تک جوڑ لو چلے چلیں گے ھم بھول گئے کہ نومبر میں جانا ھے اور ھم دو اکتوبر 2018 کو ھی چلے گئے ، خزاں ابھی شروع نہیں ھوئی تھی۔ پتے بھی ابھی مکمل زرد نہ ھوئے تھے پر جیسے جیسے ھم خنجراب پاس کی طرف جاتے گئے ھمیں خزاں ملتا گیا زرد اور سرخ پتے ، بہت سے لوگوں سے ملاقات ھوئی جناب بہار میں آئیں پھر مزا آئے گا آپ کو ساری وادی سفید، پنک، جامنی پھولوں سے بھری ھوتی ھے، ھر طرف خوشبو ھی خوشبو ھوتی ھے۔ھم نے بھی سوچنا اور خواب دیکھنا شروع کردیئے، اپریل 2019 میں دفتری مصروفیات کی وجہ سے نہ جاسکے، اور طے یہ پایا کہ انشاءاللہ اپریل 2020 میں ھنزہ ضرور جائیں گے، تیاریاں مکمل کیں۔ گرم کپڑے بھی باھر ھی رکھے،خورشید عالم بھائی سے ملاقات ھوئی تو پوچھا بشام والی سائیڈ سے کتنا وقت لگے گا اسلام آباد سے گونر فارم تک کہنے لگے کوئی پندرہ گھنٹے، ھمت بھی جمع کرلی اور پیسے بھی جمع کرلئے، کریم آباد گیسٹ ھاوس والے کو فون کیا اسلام علیکم صفدر بھائی کوئی سات دن کیلئے ایک کمرہ بک کرلیں آوں گا فیملی ساتھ، اظہر بھائی نہ آئیے گا گیسٹ ھاوس، ھوٹل کھولنے کی اجازت نہیں ھے، سب طرف لاک ڈاون ھے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے یہاں سے چائنہ کا راستہ ھے تو زیادہ مسئلہ ھے اور سردی بھی ھے۔ ھم تو عجیب پھنس گئے ھیں سال میں دو دفعہ سیزن آتا ھے سیاحت کا اور سب جمع پونجی لگا دی اور گیسٹ ھاوس تیار ھے رنگ روغن، صفائیاں، مرمتیں، پانی، گیزر سب اوکے کرلیا اب لاک ڈاون ھوگیا ھے، نہ جیب میں پیسے ھیں اور نہ ھی علاقے میں سیاح ھیں، بہت پریشانی بن گئی ھے پہلی دفعہ ھے کوئی بہار دیکھنے نہیں آیا ھر طرف ویرانی ھے اور سب گھروں میں بیٹھے ھیں،
اچھا بھائی آپ اکاونٹ نمبر بھیجیں میں آپ کو پیسے بھیج دیتا ھوں میں نہیں آسکوں گا تو آپ ایڈوانس سمجھ لیجئے گا میرے پاس ھیں پیسے، اظہر بھائی ھم محنت کرنے والے لوگ ھیں، ھمیں شرمندہ مت کریں، سوری بھائی میں خود شرمسار ھوگیا ھوں معاف کردیجئے گا، سوچ رھا ھوں سارے ھوٹل، ریسٹورانٹ، جیپ والے، ڈارئی فروٹ والے، تحائف کی دوکانیں ان سب پر کیا گزر رھی ھوگی سب نے مال تیار کیا ھوگا، انتظار ھوگا، روزگار کا اچھے دنوں گا اور ادھر کرونا صاحب تشریف لے آئے جو کچھ کرنے ھی نہیں دے رھے، حکومت اربوں روپے خرچ کر رھی ھے ان کو سیاحت سے وابسطہ افراد کیلئے بھی کسی پیکج کا اعلان کرنا چاھیئے، جو کئی مہینے تیاری کرتے ھیں کہ بہار آرھی ھے اور ھماری زندگی میں بھی بہار آجائے گی اور تو اور پھول، پودے، پرندے بھی سوچ رھے ھوں گے کہ یہ کیسی بہار آئی ھے کہ ھم کو دیکھنے کوئی نہیں آرھا خیر ھو کوئی بتا بھی نہیں رھا کہ ھر طرف ھو کا عالم کیوں ھے، سب کچھ ویران کیوں پڑا ھے، سنتے تھے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا، اب دیکھ بھی لیا کہ میرے وطن میں بہار تو آگئی ھے پر دیکھنے والا کوئی نہیں ھے، لاکھوں سیاح اور کروڑوں روپے اس علاقے کا رخ کرتے ھیں اس دفعہ سب ھی گھر پر ھیں۔ ساغی علی ھوپر میں میرا انتظار کر رھا ھوگا اب اس کو کیسے اطلاع کروں کہ ھم نہیں آسکتے۔ بہار تو امید لاتی ھے پریہ کیسی بہار آئی ھے ھر طرف ناامیدی ھی ناامیدی ھے، کوئی تو حوصلے کی بات کرو دل بہلانے کی بات کرو، پتہ تو چلے بہار آئی ھے، پھول مارکیٹس بھی بند ھیں پھول بھی سوچ رھے ھوں گے شاید انسان سدھر گئے کوئی پھول توڑنے ھی نہیں آتا اور کچھ سوچ رھے ھوں گے پتہ نہیں کیا غلطی ھوگئی ھے اب قبروں کے علاوہ ھمارا استعمال کوئی نہیں ھے، کہاں گئے وہ سب جو گلدستے پیش کرتے تھے، اور وہ کہاں ھیں جو بالوں میں ھمیں سجاتیں تھیں، شاید بہار بھی کچھ جلدی آگئی ھے۔ اور جلدی کے کام شیطان کے ھوتے ھیں۔ بہار تھوڑا صبر ھی کرلیتی۔ ھم بھی تصویر بنا لیتے کہ بہار آئی ھے۔

Prev حسنین ملک
Next رمضان

Comments are closed.