آؤ نفرت پھیلائیں 

آؤ نفرت پھیلائیں

تحریر محمد اظہر حفیظ

نفرت پھیلانے کے لیے ڈسٹری بیوٹرز درکار ھیں تنخواہ ایک لاکھ سے کروڑوں تک، آپ پڑھے لکھے ھوں یا ان پڑھ، عالم ھوں یا جاھل ھم بتائیں گے عوام کو آپ ڈاکٹر ھیں عالم ھیں ویسے آپ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنیں گے یا پی ایچ ڈی ھمارے پاس دونوں ڈگریوں کا انتظام ھے، آپ دین کے کسی بھی موضوع کو چھیڑ لیں ھمارے پاس ایڈوانس معافی نامے موجود ھیں، آپ کو سب اجازت ھے جس کو چاھیں وزیراعظم بنائیں جس کو چاھیں اتار دیں، جس کو چاھیں محب وطن ثابت کر دیں اور جسکو چاھیں غدار وطن،
چالیس سے پچاس چینل ایک سے بڑھ کر ایک نفرت پھیلانے پر لگے ھیں اور بہت محنت کر رھے ھیں اور اس پر بیٹھے پڑھے لکھے لاکھوں روپے لینے، والے کینسر سوری اینکر اپنی عقل و شعور کو ایک سیٹھ کی عقل کے تابع کرکے آزادی صحافت کا علم بلند کیے ھوئے ھیں اور، جن کی ساری زندگی پیسے اکٹھے کرنے میں گزری اب وہ کالم لکھ کر، صراط مستقیم کا رخ متعین کر رھے ھیں، کچھ تو اللہ کا خوف کرو جناب عالی مہربانی ھوگی، عزت لٹنا عزت اچھالنا ھی الیکٹرانک میڈیا کا، موضوع کیوں ھے
چینلز کے بعد اخبارات بہت دل سے یہ فریضہ ادا کر رھے ھیں الحمدللہ اب نفرت ھر طرف ھے اور بہت کثرت سے ھے،
جن دوستوں کے پاس دلائل نہیں ھوتے وہ اپنی آواز کو بلند کرکے سمجھتے ھیں وہ سامنے بیٹھے شخص کو قائل کر لیں گے یا دبا لیں گے تو یہ محض انکی سوچ ھے، ایڈیٹر کا آپکی سوچ سے متفق ھونا ضروری تو، نہیں،
کانوں سے بہرے اور بیوقوف میں فرق ھوتا ھے حضرت اس لیے احتیاط کیجئے۔
نفرت پھیلانے کا آغاز مساجد جیسی پر امن جگہوں سے ھوا جہاں لاوڈ سپیکر کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا گیا اور وہ ذھن اور دل جن میں قرآن اور حدیث محفوظ تھی پاکدلی اور امن کے ضامن تھے وہ راستے سے ھٹے اور جنگ و جدل میں مصروف ھوگیئے جتنی نفرت وہ پھیلا سکتے تھے اس سے زیادہ محنت کی اور ھر طرف سنی، دیوبندی، اھلحدیث اور شیعہ کا نعرہ بلند ھونے لگا پیدل چلنے والے سائیکل چلانے والے علماء پراڈو اور پجیرو پر سوار ھوگئے نفرت کے پودے لگائے گئے اور اب وہ تناور درخت بن چکے ھیں، دنیا کی کچھ بلند ترین چوٹیاں پاکستان میں ھیں پر نفرت کے سب بلند ترین پہاڑ ماونٹ ایورسٹ، کے ٹو، نانگاپربت بھی میرے ملک میں ھی ھیں اور ان کی اونچائی روز بروز بڑھتی چلی جا رھی ھے،
کیا سیاست گالی دیئے بغیر نہیں کی جاسکتی، کیا تحمل کی زبان اب زبان نہیں رھی، کیا معاف کرنا معافی مانگنے کا وقت گزر، گیا، کیا درگزر کرنا ماضی کا صیغہ ھے کیا وقت پر کام کرنے سے عزت کم ھو جاتی ھے کیا کسی کو سہولت دینے سے اپکا قد چھوٹا ھو جاتا ھے کیا سب کو ماں بہن کی گالی دینا ھمارا دینی اور مزھبی فریضہ ھے، اگر ھم اس ریت کو بدلیں جو اچھے کام کرے اس کو اچھا کہیں جو برے کام کرے اس کو برا کہیں تو کیا ھی اچھا ھو، دین کو اپنے دل اور دماغ پر نافذ کریں دوسرے کی فکر چھوڑ دیں اگر سب نے اپنا اپنا حساب دینا ھے تو آپ کون ھیں کفر کے فتوے دینے والے قیامت کے دن اگر سب کو اپنے اپنے نفس کی پڑی ھوگی میرے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو اپنی امت کی بھی فکر نہ ھوگی تو آپ کون سے دین کے ٹھیکدار ھیں جو دنیا میں جنت دوزخ تقسیم کر رھے ھیں میرے نبی صلی الله عليه وسلم دس لوگوں کو جنت کی بشارت دیتے ھیں اور رب سے امت کی بخشش کا وعدہ لیتے ھیں پر یہ کون لوگ ھیں جو ھزاروں خود کش حملہ آور تیار کرتے ھیں اور انکو جنت کی بشارت دیتے ھیں وہ دراصل جنت کے نہیں دوزخ کے سوداگر ھیں نفرت کے تقسیم کار ھیں، وکلا انصاف کی طرف دھیان دینے کی بجائے ھڑتالوں کے ذریعے عدالتی نظام کو مزید سست کر رھے بیں، ڈاکٹر تنخواہ بڑھانے کے لیے ھسپتال بند کر رھے ھیں، اساتذہ نفرت پھیلا رھے ھیں سیاسی جماعتیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کے ذریعے نفرت کے بیج بو رھی ھیں یہ کیا ھو رھا ھے ھم سب کو نفرت کی نیند سے جاگنا ھوگا ھم کو ویسا پاکستانی بننا ھوگا جیسا قائد اعظم اور انکے ساتھیوں نے سوچا تھا ھم کو ویسا مسلمان بننا ھو گا جیسے میرے نبی کریم صلی الله عليه وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ھمیں نفرت کے خلاف جنگ لڑنا ھوگی محبت شفقت رواداری کو فروغ دینا ھوگا اچھا مسلمان اور پاکستانی بننا ھوگا تبھی ھم کامیاب ھونگے اور نفرت ھارے گی انشاءاللہ

Prev آج کے فوٹوگرافر
Next مجھے سمجھ نہیں آرھی

Comments are closed.