آم

آم

تحریر محمد اظہر حفیظ

آم تو سب کا ھی پسندیدہ پھل ھے، شاید ھی کوئی بدنصیب ھو جو اسے ناپسند کرے، آم ھوں اور بہت سارے ھوں تو بات سمجھ آتی ھے، جب سے ھوش سنبھالا ایک بڑے برتن میں چوسنے والے بہت سے آم ، پانی اور برف ڈال کر سب کے درمیان رکھنا اور پھر بغیر گنتی کے چوسنا ایک کمال خوش ذائقہ احساس ھے، پہلے اباجی اور امی جی کے ساتھ بیٹھ کر یہ کام ھوتا تھا اب وہ نہیں رھے تو ھم اباجی اور امی جی بن کر اپنی اولاد کے ساتھ بیٹھ کر یہ پارٹی کرتے ھیں، آم کھانے کے بعد منہ اور ھاتھ کا دھونا لازم ھے کیونکہ ابھی تک کوئی بھی ٹشو ایجاد نہیں ھوا جو آم کی خوشبو اور مٹھاس کو صاف کرسکے، کئی سال سے شوگر ھے پر اللہ بھلا کرے ڈاکٹر مبین اسلم بھائی کا جنہوں نے اس سلسلے میں آگاہی مہیا کی، کہ آم کے چھلکے میں کافی مقدار میں انسولین پائی جاتی ھے، اگر ایک آم کھائیں تو اس کی ایک پھانک کے برابر چھلکا بھی کھالیں تو وہ شوگر لیول کو کنٹرول رکھتا ھے بس پھر زندگی میں موجیں لگ گئیں، ایک آم بمعہ مکمل چھلکے کے کھالیں اور پھر باقی تین آم مزے لیکر کھائیں کئی سال سے یہ کامیاب پریکٹس جاری ھے، آم کا چھلکا بھی اچھے ذائقے کاھوتا ھے بس تھوڑا سا کسیلا ھوتا ھے، آپ بھی ٹرائی کرسکتے ھیں آزمودہ نسخہ ھے،

عام تو کئی نسل کے ھیں پر جو مقام سفید چونسہ اور انور ریٹول کو حاصل ھے کم ھی آموں کے حصے میں آیا ھے، ذائقے سب کے اچھے ھیں پر انکی تو بات ھی اور ھے اب تو کئی نقلیں سفید چونسہ اور انور ریٹول کی نکل آئی ھیں، جیسے کہ نواب پوری چونسہ، کالا چونسہ، بارہ نمبر انور ریٹول پر اصل اصل ھی ھوتا ھے، سارا سیزن آموں کے تحائف موصول ھوتے رھتے ھیں ڈی جی خان سے کامران بھائی، صادق آباد سے شاھد ندیم بھائی، جہانیاں سے طارق حمید سلیمانی بھائی اسلام آباد سے فرخ بھائی اور بہت سے دوست آم بھیجتے رھتے ھیں، اور کچھ بھول جاتے ھیں جن کے نام لکھنا میں بھی بھول جاتا ھوں، سب دوستوں کا شکریہ جو محبتوں میں یاد رکھتے ھیں، باقی سیزن محمد طارق حفیظ بھائی آم گھر میں ختم نہیں ھونے دیتے، پیٹی سے کم آم تو آم ھی نہیں لگتے بس کچھ عامیانہ سی حرکت لگتی ھے، سفید چونسہ ٹھنڈا کرکے کاٹ کر دس بارہ ڈشوں میں رکھے ھوں تو جینے کو اور کیا چاھیئے اگر اور مزا کرنا ھے تو پھر انور ریٹول جو آتا سیزن کے آخر میں ھے پر کھلے برتن میں برف میں لگا کر کھائیں تو سبحان اللہ نہ کہنے والا کافر ھی ھوسکتا ھے،

مارچ اور اپریل شروع ھوتا ھے تو سارے ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم شروع ھوجاتا ھے، جس طرف نکلو گندم کی کٹائی ھورھی ھے تھریشر لگے نظر آتے ھیں فضا میں ھر طرف گندم اور بھوسے کی خوشبو ھوتی ھے، زمین سونا اگل رھی ھوتی ھے اور کسان خوشحال ھورھا ھوتا ھے، اب کے عجیب مارچ اور اپریل آیا ھے آم کے درختوں کی کٹائی ھو رھی ھے ھوا سے خون کی بو آرھی ھے، کئی ھزار ایکٹر رقبے سے آم کے درختوں کی کٹائی ھورھی ھے اور ان کی چیخیں کسی کو سنائی نہیں دے رھیں اب وھاں سیمنٹ کے پہاڑ بوئے جائیں گے، اور سریے کاٹے جائیں گے لوگ بھول جائیں گے کہ آم کی خوشبو کیا ھوتی ھے، اور نہ ھی اب میرا کسی دوست سے امید یا تقاضا ھے کہ وہ آم بھیجے کیونکہ جب آم کا درخت ھی نہیں ھوگا تو آم کہاں سے آئیں گے، ھم آپنی آنے والی نسلوں کو بتائیں گے جیسے ڈائنوسار ایک جانور تھا اسی طرح آم بھی ایک پھل ھوتا تھا آم پھلوں کا بادشاہ ھوتا تھا اور وہ ھماری ھاوسنگ سوسائٹیوں کی نظر ھوگیا، ھائے اور ظالمو تم نے ھمارے خاص آم کو عام کردیا، ایک کہانی سب نے پڑھی ھے کہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح کرکے ایک دفعہ ھی لالچ میں سارا سونا حاصل کرنے والے کو لالچی کہتے ھیں، جنہوں نے باغ بیچے یا زبردستی خرید لئے گئے اور آم کے باغ کاٹ دیئے گئے دونوں ھی ظالم ھیں اور اللہ کبھی ظالموں کے ساتھ نہیں ھوسکتا،

اربوں درخت لگانے والی سرکار سے منت ھے کہ فوری طور پر درخت کاٹنے پر پابندی عائد کی جائے اور جو ھاوسنگ سوسائٹی یہ کام کرے اس کو کام کرنے سے روک دیا جائے، اور ان کا این او سی کینسل کردیا جائے، سپنی کے بارے میں سنا تھا کہ وہ اپنے بچے خود کھا جاتی ھے ورنہ دنیا میں اتنے سانپ ھوں کہ انکو کنٹرول کرنا مشکل ھو، پتہ لگایا جائے یہ کونسے سانپ ھیں جو اپنے ھی بچے کھارھے ھیں، اور انکو احساس نہیں کہ وہ کیا کر رھے ھیں، اس سال ھم نے گندم اور چینی امپورٹ کی ھے پر ھمارے آم تو دنیا میں سب سے اچھے تھے اب وہ کہاں سے امپورٹ کریں گے، مجھے احساس ھورھا ھے کہ شاید ھی آم عام مل سکیں جو پچھلے سیزن میں کھائے وہ شاید ھمارے دور کے آخری آم تھے شاید اب آم عام نہ مل سکیں، کوئی ھے جو اس ظلم کا نوٹس لے۔ اور اس قتل آم کو بند کرے،

Prev استاد محترم ایم ایچ جعفری
Next مسکرائے

Comments are closed.