احتیاط

احتیاط
تحریر فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ
اباجی تربیلا ڈیم جانا ھے دسویں کلاس میں تھا ساری کلاس جارھی ھے، جی بیٹا جاو ضرور پر خیال رکھنا کشتی وچ نہیں بیٹھنا، پانی دے زیادہ نزدیک نہیں جی جانا جی ابا جی اور عمل کرتے تھے مجھے آج تک کسی پولیس والے نے یا گارڈ نے نہیں روکا یا اس کی ضرورت محسوس نہیں ھوئی، کیونکہ ھمیں والدین نے سکھایا ھے پولیس چیک پوسٹ پر، روکنے پر، رکنا ھے اشارے پر کھڑا ھونا ھے، بے جا ھارن نہیں بجانا، جہاں لکھا ھو تصویر کھینچنا منع ھے وھاں تصویر نہیں بنانی، ندی نالوں میں. نہیں نہانا اس تمہید بیان کرنے کا مقصد عرض یہ کرنا ھے کہ جب بھی کوئی حادثہ ھوتا ھے لوگ اور میڈیا فورا لکھنا بولنا شروع کر دیتے ھیں ھر سال راول ڈیم میں لوگ ڈھوبتے ھیں حکومت کچھ انتظامات نہیں کرتی محترم دوستو وھاں لکھ کر، لگایا ھوا ھے یہاں نہانا منع ھے پھر بھی لوگ تجربہ ضرور، کرتے ھیں پتہ نہیں کیوں، پٹرول ٹینکر الٹ گیا ڈرائیور نے بہت منع، کیا لوگ پٹرول لوٹتے رھے اور اگ لگنے سے دوسو جاں بحق حکومت نے کچھ انتظام نہیں کیا، حکومت کیا کرے کچھ تو بتائیں،غیر قانونی طور پر اٹلی جاتے ھوئے بیس جوان سمندر، میں پھس گئے حکومت انکو واگزار کرائے اور انکے گھر والوں کی امداد کریں، آتش بازی کرتے ھوے ایک جوان کا ھاتھ ضائع ھوگیا دیکھیں جی حکومتی کیا انتظامات ھیں، ڈور پھر گئی موٹر سائیکل سوار کے گلے پر اب بھائی حکومت نے پابندی لگا دی اب پابندی پر شور اور کیا انٹرٹینمنٹ ھے اب اس پر بھی پابندی، بچہ کنویں میں گر کر، جان بحق ون ویلنگ کرتے بچہ جان بحق حکومت کچھ نہیں کرتی میرے خیال میں اس کی باقاعدہ سے سزا والدین کو دینی چاھیے تاکہ باقی ماں باپ سبق حاصل کریں 1998 میں اور جاوید چوہدری کراچی گئے رات کو ھم ساحل سمندر پر تھے تو پانی کی اونچی لہریں آرھی تھیں اور، کپڑے گیلے کر، رھی تھیں مجھے محفوظ صورتحال نہیں لگ رھی تھی چوھدری صاحب سے کہا چلیں جو ھمارے میزبان تھے گویا ھوئے بہت مزا آرھا ھے میں نے کہا میں ذرا چھلی کھا آوں اور نیچے اکر میں چھلی کھانے لگ گیا اور تھوڑی دیر بعد، چوھدری صاحب آئے مسکراتے ھوئے شکوہ کرنے لگے یار بندہ کسے ھور نوں وی نال بلا لیندا اے چھلی کھان واسطے بہت بے شرم انسان ھو میں نے قہقہہ لگایا چوھدری صاحب درخواست کی تھی لیکن آپکے دوست، کو مزا آرھا تھا اور مجھے ڈر لگ رھا تھا آج ھی پتہ چلا بارہ لوگ ھاکس بے پر، لہر کی نظر ھوگئے تو ساری صورتحال ذھن میں آگئ دوستو اپنے لیے احتیاط آپ نے خود کرنی ھے کوئی حکومتی اہلکار آپ کو کیسے روکے گا، جب آپ مزے میں مرنے پر تلے ھوئے ھیں مہربانی کیجئے احتیاط کیجئے، جب ھندوستان سے پاکستان ھجرت کر رھے تھے ایسی بیٹیوں کے والدین جو خوش شکل تھیں انھوں نے بچیوں کے منہ پر کالک لگائی ھوئی تھی تاکہ وہ خوش شکل نظر نہ آئیں اور محفوظ رھیں اور اللہ نے ان کو ھندو اور سکھوں کے نازیبا حملوں سے محفوظ رکھا،
ھمارے دوست افتخار یزادانی کی گاڑی دامن کوہ جاتے ھوئے سلپ ھوکر کھائی میں جا گری گاڑی تباہ ھوگئی خود محفوظ رھے شکر الحمدللہ کہنے لگے سیلٹ بیلٹ لگائی ھوئی تھی اللہ نے بچا لیا ورنہ جب گاڑی رول ھوئی میں اس میں سے نکل جاتا اور کچھ نہ بچتا، حکومت کو چاھیے ھمارے لیے تمام حفاظتی اقدامات کرے لیکن احتیاط ھمیں خود کرنی ھے
تمام بیٹیاں اور بہنیں پاکستانی ماحول کے مطابق لباس پہنیں انشاءاللہ انکو شکایات کم ھون گی لیکن دوسرے کلچر کو یہاں اپنانے کی کوشش میں وہ مختلف شکایات کا شکار ھوتی ھیں تو وہ یاد رکھیں جیسا دیس ویسا بھیس۔
ھمارے فوٹو گرافر دوست بلا وجہ کیمرے گلے میں ڈالے مٹر گشت فرماتے ھیں اور کیمرہ چھیننے جیسی تکلیف دہ صورتحال کا شکار ھو جاتے ھیں اللہ سب کی حفاظت کریں امین
کچھ دوست لینز کو مکمل کھول کر لینز ھوڈ لگا کر تاکہ لینز بڑا نظر آئےاور لوگ متاثر ھوں اکثر لینز تڑوا بیٹھتے ھیں لینز کھلا ھونے کی وجہ سے اس کے ٹکرانے کے چانسز بڑھ جاتے ھیں اور اس لیے احتیاط کیجئے محفوظ رھیے۔
احتیاط کے بارے میں پہلی اگاھی والدین کا فرض ھے پھر حکومتی ذمہ داری شروع ھوتی ھے کچھ دن پہلے موبائل فون جیتنے کی شرط پر ایک جوان زندگی گنوا بیٹھا ویسے بیوقوف دوست جنہوں نے اسکی جان کی قیمت ایک موبائل فون لگائی ویسا وہ مرنے والا بیوقوف جس نے اپنی زندگی کی قیمت ایک موبائل فون سمجھی۔
اب کچھ لوگ اس کا الزام بھی اللہ تعالیٰ کو دیں گے جی اسکی لکھی ایسے تھی میں اس سے اتفاق نہیں کرتا مجھے معاف کر دیجئے یا کفر کا فتویٰ دے دیجئے
موٹروے پر سب قانون کےمطابق، چلنے کی کوشش کرتے ھیں کیونکہ سزا اور جرمانے میں معافی نہیں لیکن کچھ جاھلین پھر بھی موت کو آزمانے کی کوشش کرتے ھیں احتیاط کیجئے
کچھ برس پہلے ایک خبر آئی لاھور چڑیا گھر میں ریچھ کے حملے نے ایک بچے کے دو ٹکڑے کر دیئے حیرت کی بات تھی اس تک بچہ پہنچا کیسے، اور خبر تھی درندوں کو حکومت باندھ کر رکھے لیکن جب تحقیق ھوئی تو پتہ چلا چھوٹے بچے کے والدین کو کسی نے بتایا تھا کہہ اگر اسکو ریچھ کی سانس کے پاس لیجایا جائے تو اس کی سانس، کی تکلیف دور ھو سکتی ھے اور وہ دو رکاوٹیں عبور، کرکے ریچھ کے جنگلے تک پہنچے جب بچہ ریچھ کی طرف کیا اس نے ڈر کر پنجہ مارا تو بچہ اس کی زرد میں اگیا اور دو ٹوٹے ھوگیا اب شور تھا کیے جنگلی اور درندہ صفت جانور چڑیا گھر میں رکھے ھوئے ھیں کچھ لوگوں کا حکم تھا ریچھ کو ھلاک کر دیں میری تجویز تھی والدین اور جس نے یہ حکیمی مشورہ دیا تھا تینوں کو ریچھ کے پنجرے میں ڈال دیں تاکہ انکا بھی علاج ھوجائے یہ حکومت کی ذمہ داری ھونی چاھیے تھی لیکن لوگ ٹھیک کہتے ھیں حکومت کچھ کرتی ھی نہیں۔
لاھور پاکستان کا دوسرا بڑا آبادی والا شہر بہت احسن طریقے سے اسکی ٹریفک کو کنٹرول کیا جاتا ھے زیادہ سڑکیں سگنل فری ھیں اب پورے لاھور کو سگنل فری کیا جار ھا ھے لیکن لوگ خوش نہیں کہتے ھیں کراچی جاکر دیکھیں بندہ ٹریفک میں ذلیل ھوجاتا ھے یہ کیا لاھور ھے ھر سڑک کی متبادل سڑک ھے اچھا جی جیسے کہیں لیکن ایک عرض ھے احتیاط کیجئے سڑک کراس،کرتے ھوئے اور منہ کھولتے ھوئے زبان کھولنا الزام لگانا آسان ھے، ایک کام کیجئے معاف کردیں اور شکریہ ادا کرنے کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائیے معاشرے کے بہت سے بگاڑ سلجھ جائیں گے انشاءاللہ تھوڑی سی احتیاط محفوظ زندگی ۔
اللہ ھم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں امین

Prev عید قربان
Next دوست 

Comments are closed.