استاد محترم احسان علی قریشی صاحب

استاد محترم احسان علی قریشی صاحب

تحریر محمد اظہر حفیظ

استاد محترم احسان علی قریشی صاحب جو نیشنل کالج آف آرٹس سے 1964کے گریجویٹ تھے۔ تعلق کوئٹہ سے تھا۔ ایسا سادہ ، پروقار اور اچھا بندہ زندگی میں کم ہی دیکھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے بطور سیٹ ڈیزاینر وابستہ ہوئے اور ڈیزائن مینیجر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹی باجی عائشہ ہے اور بیوی کو کینسر کا مرض انکے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اور کچھ سالوں بعد انکی دوسری شادی کردی گئی جس میں سے زارا بیٹی پیدا ہوئی۔

احسان صاحب سے میری پہلی ملاقات راولپنڈی آرٹس کونسل میں 1987 میں ہوئی جب میں میٹرک کے پیپرز دے کر فارغ ہوا تھا۔ اور ڈرائنگ سیکھنے انکے پاس جانا شروع ہوا۔ پھر ساری زندگی روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رہا۔ میرا انکا تعلق استاد شاگرد سے زیادہ باپ بیٹے کا رہا۔ جب بھی انکو کوئی کام ہوتا تو مجھے فون کرتے یار اظہر یہ کام کردو۔ میں فورا حاضر ہوجاتا۔ احسان صاحب بہت اچھے آرٹسٹ کے ساتھ ساتھ رائٹر بھی کمال کے تھے۔ ساری زندگی سادگی میں گزار دی۔

جتنے اچھے طریقے سے احسان صاحب نے راولپنڈی کو ڈاکومنٹ کیا اسکی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھابڑا بازار، جامع مسجد روڈ، راجہ بازار، اقبال روڈ، بنی، ایوب پارک ہر جگہ لوکیشن پر بیٹھ کر انھوں نے پین اینڈ انک سے اس جگہ کی ڈرائنگ کی۔ میں انکی ہر نمائش پر جاتا تھا اور وہ میری ہر نمائش پر تشریف لاتے تھے۔ میری زندگی میں تمام کامیابیاں اللہ کے فضل کے بعد میرے والدین اور میرے اساتذہ کی دعاوں کا نتیجہ ہیں۔ میری بیماری پر وہ میری فیملی سے فون پر رابطہ کرتے اور روتے رہتے تھے۔ جب میری طبعیت بیتر ہوئی تو فون آگیا یار اظہر تو ایک زبردست آدمی ہے یار تو کیسے بیمار ہوگیا۔ ایک لمبے عرصے سے احسان صاحب کی ایک ٹانگ موٹر سائیکل کے حادثے کے بعد سے متاثر تھی۔احسان صاحب کے شاگردوں میں مجھ ناچیز کے علاوہ ہزاروں شاگرد تھے جو بہت نامور بھی ہوئے۔ راحت سعید، توصیف احمد ، انجم ایوب، محمد عتیق، شندانہ یوسف، فیصل سید، سید جعفر عابدی، ارجمند، فاخر مہندی اور سینکڑوں لوگ شامل تھے ۔

میرے سارے کیرئیر کے پیچھے احسان صاحب کھڑے تھے۔ میرے گھر، دفتر اکثر آتے تھے اور جب دل کرتا حکم کرکے بلا لیتے تھے۔ میرے سارے گھر سے انکی دوستی تھی۔ انکو میں نے اپنی بیوی کا نمبر بھی دیا ہوا تھا وہ میرا فون بند ہونے پر پریشان ہوجاتے تھے۔ اور پھر میری بیوی کو فون کرتے تھے ۔ بھئی یہ اظہر کا فون کیوں بند ہے، وہ بتا دیتی سر وہ شہر سے باہر ہیں شاید سگنل کا مسئلہ ہے وہ آپ سے رابطہ کرتے ہیں۔ اور مجھے گھر سے فون آجاتا فورا سر سے رابطہ کریں وہ پریشان ہو رہے ہیں۔ یوں ساری زندگی ان سے رابطہ رہا۔ ایک دفعہ ٹیکسلا جولیاں یونیورسٹی ڈرائنگ کیلئے گئے کچھ خواتین سٹوڈنٹ بھی ساتھ تھیں ۔ ہم استاد شاگرد زمین پر بیٹھ گئے اور ایک خاتون جو مہنگے لباس میں ملبوس تھیں۔ میں کہاں بیٹھوں احسان صاحب غصے میں بولے بی بی اسی زمین پر بیٹھ کر گوتم بدھ آسمان تک پہنچ گیا اور آپ بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈ رہیں ہیں۔

ایک دن میں واٹر کلر کر رہا تھا کہنے لگے یار اظہر تیرے کلرز بہت اچھے ہیں۔ پاس ایک کرنل صاحب کی بیوی بیٹھی تھی اگلے دن اسی برانڈ کے کلر لیکر آگئی ۔ کام کیا تو احسان صاحب بی بی کلر ایسے لگاتے ہیں کیا۔ سر وہی کلر ہیں ہیں جو اظہر حفیظ استعمال کرتا ہے۔ بی بی میں نے کلر استعمال کرنے کے طریقے کو سراھا تھا کلر برانڈ کو نہیں۔

مجھے یاد ہے میرا پہلا شو ہنر کدہ میں تھا 1991 میں احسان صاحب تشریف لائے تو میں نے کمنٹس کرنے کو کہا تو گاڑی تک گئے ایک اپنا لیٹر ھیڈ لیکر آئے اس پر لکھ کر دیا جو میرے سارے کام کا پھل ہے ۔ “جہاں لوگوں کی نگاہ دیکھنا بند کردیتی ہے اظہر حفیظ وہاں سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔”

اتنا اچھا شاید ہی کسی اور نے سراھا ہو۔

1994 میں میرے دفتر ایف ٹین آگئے ہم چائے پینے پاس بیگا ریسٹورنٹ چلے گئے ہمیشہ یہی کہتے یار وقت نکالو کہیں بیٹھتے چائے پیتے ہیں فرنچ فرائز اور سینڈوچ بھی کھائیں گے۔

یار اظہر زارا بیٹی کے کمپیوٹر پر ونڈوز کردو۔ سر کی باجی عائشہ اور اورنگزیب بھائی سے نواسیاں ہیں۔ فون کرنا یار اظہر میری نواسی آمنہ کو فوٹوگرافی سکھا دو اس نے امریکہ جانا ہے۔ یوں رابطے کے لاکھوں بہانے تھے ۔ ہمیشہ ہی انکا فون اٹینڈ کیا۔ یکم مارچ کو فون آیا تو اٹینڈ نہ کرسکا واپس کال کرنے لگا تو میسج بھی آیا ہوا تھا۔ انکل نانا ابو کا انتقال ہوگیا سب کو اطلاع کردیں۔ فورا اورنگزیب بھائی کو فون کیا تو پتہ چلا 2 مارچ دن گیارہ بجےجنازہ ہے۔ باقی تو ضبط کابندھن ساتھ رہا پر اورنگزیب بھائی سے ملکر رو دیا۔

اور تدفین کے بعد وہاں سے نکل آیا۔ شام کو راحت سعید صاحب کا فون آیا ہم نے آپ سے افسوس کرنا تھا آپ تو سر کے وارث ہیں افسوس تو آپ سے بھی بنتا ہے میرے پاس الفاظ نہیں تھے کیونکہ میرے والدین کے بعد میری عزیز ترین ہستی میرے استاد احسان علی قریشی اس دنیا سے جاچکے تھے اللہ تعالی انکیلئے اگلے تمام مراحل آسان فرمادیں آمین میرے استاد اور میرے والدین کیلئے دعاوں کی درخواست ہے۔ جزاک الله خیر

 

 

 
Prev قبر
Next جوان موت

Comments are closed.