استانی

استانی

تحریر محمد اظہر حفیظ

میری والدہ محترمہ ایک استانی تھیں، کئی سال کی محنت کے بعد وہ سکول کی ھیڈ میسٹرس بن گئیں، ھم تینوں بہن بھائیوں نے اپنی ماں کے اس مشکل وقت کو دیکھا بھی اور محسوس بھی کیا، میری امی جی کہتیں تھیں بھلا بغیر مجبوری کس کا دل کرتا ھے گھر سے نکلنے کو، وہ ھم تینوں کو رات کو نہلا کر سلاتیں تھیں، تاکہ صبح سکول سے کسی کوبھی دیر نہ ھوجائے، جب تنخواہ کا دن ھوتا تھا وہ دن بہت مشکل ھوتا تھا امی جی لائلپور سے پچیس سکولوں کی تنخواہ لیکر آتیں اور سب استانیاں آکر امی جی کے سکول سے وصول کرتیں تھیں، ھم سارا دن اپنی امی جی کا انتظار کرتے بہت تھکی ھوئی آتیں تو ھم بہت چھوٹے تھے پر کوئی امی جی کا سر دباتا اور کوئی ٹانگیں، پر وہ پھر اٹھ کر ھانڈی روٹی کرنے لگ جاتیں روز تازہ سالن بنا کر دیتیں، اکثر گرمیوں میں بادام کی سردائی بھی بنا دیتیں، پھر جب الیکشن آجاتے تو لڑائی جھگڑے پولنگ سٹیشن پر ھوتے اور ھم بلاوجہ رو پڑتے، دعائیں کرتے ھماری امی جی ٹھیک ھوں، یونہی زندگی گزرتی رھی، اور پھر ھم اسلام آباد آگئے اور ھماری امی جی نے ریٹائرمنٹ لے لی اور انکی زندگی آسان ھوگئی، اگر مجبوری نہ ھوتو سب ماوں، بہنوں کو نوکری نہیں کرنی چاھیئے، میرے بڑے بھائیوں جیسے بھائی متین شہاب صاحب کی جب شادی ھوئی تو پتہ چلا بھابھی استانی ھیں اور گاوں کے سکول میں پڑھاتی ھیں، متین بھائی اسلام آباد میں رھتے ھیں تو بھابھی کی ٹرانسفر اسلام آباد ھوگئی پہلے پانچ سال کیلئے اور پھر وہ مستقل اسلام آباد کے سکول میں ھی پڑھانے لگیں، متین بھائی پرنٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ھیں، اللہ تعالی نے ماشاءاللہ ایک بیٹی اور بیٹے سے نوازا زندگی بہت اچھی گزر رھی تھی کہ بھابھی کی طبعیت خراب رھنے لگی چیک کرانے پر پتہ چلا کہ کینسر کے عارضے میں مبتلا ھیں شفاء انٹرنیشنل اسلام آباد سے کینسر کا کامیاب آپریشن ھوا کیموتھراپی کے مشکل عمل سے گزرنے کے بعد اللہ نے زندگی دی اور بھابھی پھر سے سکول جانا شروع ھوگئیں، لیکن کینسر کے باقی مریضوں کی طرح انکا علاج مسلسل چل رھا ھے ماشاءاللہ بھابھی ٹھیک ھیں پھر بھی ڈاکٹر سے رابطے میں رھنا پڑتا ھے، کچھ دن پہلے فیڈرل ایجوکیشن ڈائریکٹ کے نئے ڈی جی صاحب آئے انکو جو بریفنگ دی گئی تو انھوں نے سب استانیوں کو واپس اپنے اداروں میں بھیجنے کے احکامات جاری کردیئے، بڑی بے شرم تبدیلی ھے ورنہ کسی کو کیسے پتہ چلتا نئے ڈائریکٹر جنرل صاحب تشریف لائے ھیں، وہ کینسر بن کر سب استانیوں پر حملہ آور ھونگے، یہ ایک استانی صاحبہ کی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھا رھا ھوں معذرت کے ساتھ ، سب کی روداد اس سے ملتی جلتی ھے، بیس سے پچیس سال اسلام آباد میں پڑھانے کے بعد، واپس جانے کے احکامات پتہ نہیں کیا سوچ کر دیئے گئے ھیں، کیا یہ قوم کی استانیاں اپنے گھر، خاندان کو چھوڑ کر واپس چلی جائیں، یا کوئی ھے جو انکی داد رسی کرسکے، کوئی ریاست مدینہ کا ذمہ دار ان کے مسائل کو حل کرسکے، کچھ ریٹائرمنٹ کا سوچ رھی ھیں اور کچھ فیملی شفٹ کرنے کا، کیونکہ بچے ماں کے بغیر کیسے رہ سکتے ھیں، وہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا، جنہوں نے دن رات لگا کر ملک کو اچھی مائیں مہیا کی ھم نے انکو ھی دربدر کردیا، بہتر ھوگا اتنے زیادہ خاندانوں کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے ڈائریکٹر جنرل صاحب کو ھی گاوں بھیج دیا جائے، نہ رھے گا بانس نہ بجے گی بانسری،

میری امی جی کہتی ھیں کہ لوگ بچیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے اور ھماری ذمہ داری بچیوں کو تعلیم دینے کی تھی، ایک بچہ الیاس ھم استانیوں کو سکول جاتا دیکھ کر آواز لگاتا تھا استانی چوھے دی نانی جو کہ بہت معیوب لگتا تھا مجھے اب محسوس ھورھا ھے کہ شاید الیاس ھی ڈائریکٹر جنرل فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن آگیا ھے، وفاقی وزیر تعلیم صاحب جن کے نام کا حصہ ھی شفقت ھے ان سے عاجزانہ درخواست ھے شفقت فرمائیں، جزاک اللہ خیر

Prev سجنا
Next تنہا

Comments are closed.