امن 

امن 
تحریر محمد اظہر حفیظ
میرے دوست بڑے بھائی میجر عنائت مرحوم بنی گالہ میں آباد ھونے والے پہلے لوگوں میں شامل تھے اسلحہ اور کتے خاصی تعداد میں رکھے ھوئے تھے کبھی کبھار کچھ فائر کرتے تھے میں نے پوچھا بھائی جان اس کی کیا ضرورت ھے کہنے لگے چور اور ڈاکوؤں کو بتانا ضروری ھے تاکہ وہ خبردار رھیں اس گھر نہیں جانا ھے اسی طرح تمام ممالک کو اپنے خاص دنوں پر اپنی طاقت کو شو کرانا پڑتا ھے کہ دھیان رکھنا ھماری طاقت یہ ھے۔ اسرائیل کی ایک وزیر سے سوال کیا گیا آپ لوگوں کو اسلحہ جمع کرنے کا جو جنگی جنون ھے اسکی وجہ کیا ھے چھوٹا سا ملک ھے جنگی سامان ساری دنیا سے زیادہ ھے اور اپکے پائلٹ ساری دنیا کے پائلٹس سے زیادہ فلائنگ کرتے ھیں۔
ان کا جواب تھا یہ ھم نے حکمت عملی آپکے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی جب انکا وصال ھوا تو ان کے پاس چند درھم یا دینار جو اس وقت کی کرنسی تھی پر وہ نو تلواروں کے مالک تھے ۔ امن کیلئے ضروری ھے آپ کے پاس اسلحہ آپ کے دشمن سے زیادہ ھو۔ 
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو سارا پاکستان جشن منا رھا تھا کیونکہ یہ ھمارے لئے امن بم تھے نہ کہ تباھی بم کیونکہ ھمارے دشمن کو پتہ ھے ایٹم بم دونوں ممالک کے پاس ھے اسکا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ھے ۔
میری بیوی میرے غصے کی عادت کی وجہ سے مجھے گن ساتھ نہیں رکھنے دیتی تھی اس کی کیا ضرورت ھے ایک دن سمجھایا میں بلاوجہ اس کے استعمال کا عادی نہیں ھوں تقریبا بیس سال سے شکار کھیلنا بھی چھوڑ دیا ھوا پھر پسٹل کیوں رکھنا ھے میری جان اگر صورتحال ایسی آجائے کہ یا ڈاکو مجھے مار دے یا میں اس کو تو بہتر ھے کہ اسکی بیوی بیوہ ھو جائے نہ کہ آپ۔ اب ھمیشہ گاڑی میں گن وہ خود رکھتی ھے جب بھی سفر پر نکلتا ھوں آیت الکرسی پڑھتی ھے دعاوں سے رخصت کرتی ھے اللہ کے حوالے کرتی ھے اس کو یقین ھے کہ میں بلاوجہ اسلحہ استعمال نہیں کروں گا۔ میرے دوست سجاد نبی بابر بہت دین دار انسان ھیں اپنے دنوں بیٹوں کو باقاعدہ اسلحہ چلانا سکھاتے ھیں کہ بوقت ضرورت کام آسکے اور دین کا بھی یہی حکم ھے میرے دوست واصف آفریدی بھی دین دار انسان ھیں انھوں نے اپنی بیوی کو باقاعدہ اسلحہ چلانا سکھایا کیونکہ دین اسکا حکم دیتا ھے جب بھی صحابہ کرام جنگ کیلئے جاتے تھے تو بیبیاں خود اپنی حفاظت کرنا جانتی تھی اور انکو اچھی طرح تلوار چلانا بھی آتا تھا 
ھمیں بھی امن کیلئے اپنی سب لوگوں کو اسحہ چلانا سکھانا ھوگا
ھم جب بھی وزیرستان یا آئل ریفائنریرز میں جاتے ھیں تو وہ حفاظتی تدابیر سے آگاہ کرتے ھیں حملہ ھونے کی صورت کیا کرنا ھے یہاں مورچہ ھے میزائل حملہ کی صورت میں فورا اس کے اندر آجائیں اور ریفائنری میں آگ لگنے کی صورت میں مختلف طرح کے سائرن بجائے جاتےھیں اس آواز پر اپنے کمرے میں رھیں اس آواز پر فورا اسمبلی ایریا میں جمع ھوجائیں ۔
اس طرح حفاظتی تدابیر بتائی جاتی ھیں۔ 
آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تمام سکولوں کی حفاظت سخت کردی گئی بچوں کو بتایا گیا حملہ کی صورت میں کیا کرنا ھے کلاس روم کے دروازے بند کرکے ڈیسک کے نیچے بیٹھ جائیں حملہ آور اگر کلاس میں آجائیں تو کھڑکیوں سے باھر نکل جائیں۔
عبیرہ میری بیٹی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سکول میں نرسری کی طالبہ تھی ٹیچرز روزانہ سیفٹی ریہرسل کرواتے تھے وہ دھشت گرد کا نام بچوں کیلئے انھوں نے برے لوگ رکھا ھوا تھا وہ آواز لگاتے تھے برے لوگ سکول میں آگئے ھیں اور بچے فورا کھڑکیوں سے کود جائیں عبیرہ نے کھڑکی سے باھر دیکھا اور کہا میم ابھی نہیں آئے جب آئیں گے تو میں چھلانگ لگا دوں گی اس نے یہ ساری بات مجھے بتائی کہنے لگی بابا ھمیں پتہ کیسے چلے گا جو آئے ھیں وہ برے لوگ ھی ھیں کسی دن مجھے برے لوگ دکھا دیں تاکہ میں پہچان سکوں اور وقت آنے پر چھلانگ لگا سکوں نہیں بیٹا مجھے خود نہیں پتہ وہ کیسے ھوتے ھیں اچھا بابا میم کہتی ھیں گوگل پر تو سب ھوتا ھے وھاں ڈھونڈ لیں میری جان یہ گوگل والوں کے ھی لوگ ھوتے ھیں ان کی تصاویر گوگل پر بھی نہیں ھوتیں۔
ھمیں دھشت گردوں کی تصاویر اپنے بچوں کو دکھانا ھوں گی اور ھندوستان کو بھی ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ امن کی آشا کا کاروبار کرنے والے جب خود کش حملے ھوتے ھیں بم دھماکے ھوتے ھہں اس وقت یہ کہاں ھوتے ھیں اس وقت امن کی آشا لا پتہ کیوں ھو جاتی ھے ھمارے لاکھوں لوگ شہید ھوگئے اور دھشت گردی کی نظر ھوگئے اور دشمن نے ھمارے لوگوں کے ھاتھ میں امن کی آشا کا جھنڈا لہرا دیا۔ پھر کہتے ھیں آپ جنگ کی بات مت کریں امن کی بات کریں قسم ھے اس رب کی جو میری جان کا مالک ھے اب جنگ کی بات ھی امن کی نشانی ھے زندگی تو آنی جانی ھے۔ ھر وقت یہ دھڑکا لگا رھے کہ بم بلاسٹ نہ ھوجائے خودکش حملہ نہ ھوجائے۔ جی یہ بم پروف گاڑی ھے یہ بلٹ پروف گاڑی ھے اور بھائی میں تو امن پسند ھوں مجھے انکی کیا ضروت پھر پہلا ٹارگٹ آپ ھی ھیں اگر آپ امن پسند ھے ۔ دھشت گرد کبھی دھشت گرد کو نہیں مارتا وہ کبھی ڈانس کلب سینما پر حملہ نہیں کرتا اس کا ٹارگٹ مساجد ھیں امام بارگاھیں ھیں یا پھر چرچ ھیں۔ امن کیلئے ھمیں ان سب کو منطقی انجام تک پہنچانا ھے جو ھمارے امن کے دشمن ھیں۔ سردار نام سنگھ ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ھیں میرے اچھے دوست ھیں اسلام آباد میں امن کیلئے ایک تقریب تھی سب نے اپنی اپنی عقل کے مطابق امن تلاش کرنے کی کوشش کی اور لمبے بھاشن دیئے۔ نام سنگھ جی کہنے لگے مینوں دسو امن گواچا کتھے آ جیھڑے سارے اننوں لبھن دیئے نے۔ اے تے ساڈے اندر ھی رھندا اے باھر کڈ لو تے سکون ھی سکون امن ھی امن۔
ھمارے تمام حکومت ادارے کمر بستہ ھوجائیں کہ ھم امن قائم کرنے جارھے ھیں آشا کا امن نہیں۔ بلکہ دین اسلام کا امن 
پاکستان زندہ باد
عوام پاکستان پائندہ باد

Prev  الحمدللہ
Next تکلیف

Comments are closed.