اکثر حیران رہ جاتا ھوں

اکثر حیران رہ جاتا ھوں
تحریر محمد اظہر حفیظ

کائنات اخبار کی کچھ ماہ کی تنخواہیں رھتی تھیں میں نے عرض کیا چیف ایڈیٹر صاحب چھوٹے عملے کی تنخواھیں تو ادا کروادیں کہنے لگے ابھی تو پیسے نہیں ھیں اور پھر ھم چند لوگوں کے ساتھ ھالیڈے ان جو کہ اب میریٹ ھوٹل ھے چلے گئے ھزاروں روپے کا کھانا کھلا دیا میرا دل بوجھل تھا کہہ دیا شاہ جی اگر ھم یہ کھانا نہ کھاتے تو کچھ لوگوں کی تنخواہ ادا ھوجاتی کہنے لگے کھانا ھم نے دوسرے اکاونٹ سے کھایا ھے اخبار والے اکاونٹ میں پیسے نہیں ھیں۔ شاہ جی پیسے بھی آپ کے اور اخبار بھی آپکا ملازم بھی آپکے رحم کریں ۔ میں حیران رہ گیا جب شاہ صاحب نے مسکرانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ اکثر اخبارات کے مالکان نئی گاڑیاں خرید رھے ھیں نئے گھر بنا رھے ھیں نئے چینیل کھول رھے ھیں نئے ملازمین رکھ رھے ھیں پر تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ھیں دوسری طرف ملازمین بھی کئی کئی مہینے سے بغیر تنخواہ نوکری کر رھے ھیں گھر چلا رھے ھیں اور کئی نے تو گھر بھی ماشاءاللہ بنا لئے ھیں۔ میں حیران ھونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ 
مجھے یہ سسٹم سمجھ نہیں آرھا شاید سمجھ آئے بھی نہ۔
1999 میں جی ایم این ایچ اے قتل ھوا تفتیشی نے نامزد افراد سے لاکھوں روپے لئے جو انھوں نے گھر کا تقریبا سارا سامان بیچ کر ادا کیئے اور آتے ھوئے واحد بچ جانے والا موٹر سائیکل بھی لیتا آیا ۔ اگلے دن سرخ رنگ کی مہران پر سوار ملا اور مجھے کہنے لگا صاحب جی بہت مشکل ھے رزق حلال سے گاڑی خریدنا میں حیران ھونے کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔
ایک دفعہ میرے والد صاحب پر ایک درزی نے پستول نکال لی میں نے پولیس کو اطلاع دی لڑکا بھاگ گیا اور پولیس مجھے دھمکیاں دے کہ اس درزی کی بڑی برادری ھے آپ صلح کر لیں اور مرکز کی یونین بھی مجھے کہے جناب آپ کو بھگتنا پڑے گا کسی کا بھی اسکی بغیر لائسنس پستول کی طرف دھیان نہ گیا۔ آپ نے بہت غلط کیا جو پولیس کو اطلاع دی یہ تو معمولی سا واقعہ تھا میں حیران ھونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا بس کچھ دن بعد وہ یونین والے صاحب جعلی کرنسی کیس میں اندر ھوگئے اور اب انکا کچھ پتہ نہیں۔
عرفان صدیقی صاحب کا کیس بھی ویسے ھی حیران کردینے والا تھا جیسے نسیم ولی صاحبہ کا انڈر ویئر چوری کرنے کا کیس۔
میرے والدین نے پاکستان بنتے دیکھا تھا اور اکثر یاد کرکے روتے رھتے تھے اور الحمدللہ ھم نے نیا پاکستان بنتے دیکھا ھے رونے اور گھبرانے کی ھمیں اجازت بھی نہیں ھے بس حیران ھوسکتے ھیں۔
اگر حیران ھوتا بھی کوئی دیکھ لے تو اسکی بھی اجازت نہیں دی جاتی بس گالیاں دی جاتی ھیں۔ جو دل میں آئے وہ القابات دیئے جاتے ھیں۔ 
میں حیران ھوں سب لوٹنے والے جیل میں ڈال دیئے ھیں اور انکو اے سی اور ٹی وی کی سہولت دی جاتی ھے گھر سے کھانے منگوانے کی اجازت دی جاتی ھے تو پیسے کون نکلوائے گا۔ جب وہ سہولت سے رہ رھے ھیں تو انکو کیا تکلیف جو پیسے دیں انکی چمڑی اتاریں تو بات بنے، میں حیران ھوں اداروں کے چیئرمین اپنے کمروں میں ملزمہ عورت کو بلاتے ھیں گلے لگا لگا کر تحقیقات کرتے ھیں اور کوئی اس پر ٹس سے مس نہیں ھوتا اور کسی جج کی خوبصورت فلمیں آتی ھیں تو وہ بھی تحقیقات کروانے کا کہتا ھے۔ جج صاحب کیسے ملزمان کو گھر جاکر ملتے ھیں کہاں ھیں خفیہ ادارے جن کو سب پتہ ھے۔ میں تو بس حیران ھی ھوسکتا ھوں۔
ڈیزل،پٹرول ،ڈالر کا مہنگا ھونا ایک قدرتی عمل ھے جیسے سیلاب آتے ھیں زلزلے آتے ھیں یہ بھی قدرتی آفات ھیں آپ ان پر بات بھی نہیں کرسکتے۔ جو ضرویات زندگی کی قیمتوں کو آگ لگی ھوئی ھے اس کا جوابدہ کون ھوگا۔ میرے ایک دوست جمعہ والے دن میرے دفتر آئے کہنے لگے جی میں بہت خوش تھا جون کے مہینے میں میرے برف خانے میں برف کی فروخت چوبیس لاکھ کی ھوئی کچھ سکون کا سانس لیا چلو گرمیاں اچھی گزر جائیں گی اور جون کا بجلی کا بل آیا تو کچھ سمجھ نہیں آرھی میں نے پوچھا خیریت کہنے لگے انیس لاکھ اسی ھزار بل آیا ھے۔ جگہ کا کرایہ ملازمین کی تنخواھیں سمجھ نہیں آرھی کیا کروں گبھرانے کی اجازت نہیں ھے بس حیران و پریشان ھوں۔ پھر گھر کیسے چلتا ھے وہ آپکی بھابھی پڑھاتی ھیں فلحال انکی تنخواہ سے۔ 
سنا تھا کاروبار بہت فائدے مند چیز ھے پر یہ بھی کوئی پرانی بات ھوگی۔ 
میرے دوست ھیں انکی سٹیل مل ھے اسلام آباد میں عید والے دن بھی وہ بند نہیں ھوتی تھی مسکرا کر کہتے تھے یار اظہر والد صاحب عید کی نماز پڑھ کر سٹیل مل آجاتے ھیں اور باقی دن مزدورں کے ساتھ گزارتے ھیں ۔ پچھلے دنوں وھاں جانا ھوا تو انکی گاڑیاں نہیں کھڑی تھیں گارڈ سے پوچھا صاحب بیٹھے ھیں ۔ جی سر۔ میں بہت حیران ھوا کہ اگر بیٹھے ھیں تو گاڑیاں کدھر ھیں۔ میں گیا ملا عرض کی بھائی گاڑیاں کدھر ھیں وہ اندر کھڑی ھیں سٹیل مل کے سائے میں ۔ کیوں اندر کیسے کھڑی ھوگیئں یار وہ کئی مہینے سے سٹیل مل بند ھے 600 بندے بھی نکال دیئے ھیں۔ کام کرنا بہت مشکل ھوگیا ھے۔ سٹیل مل چلائیں تو زیادہ نقصان ھے بند کرکے کم نقصان ھے ۔ میری ان سے دوستی پچھلے پچیس سال سے ھے میں نے پر امید رھنا ان سے ھی سیکھا ۔ وہ آج بھی بہت پر امید ھیں انشاءاللہ جلد سب ٹھیک ھوجائے گا۔ روزانہ وقت سے پہلے دفتر آتے ھیں تاکہ انکی ٹیم حوصلے میں رھے۔ 
گورنمنٹ 1000 سی سی تک گاڑیوں پر لائف ٹائم ٹوکن زبردستی لے رھی ھے، ھر گاڑی پر موٹروے کا ٹوکن سٹیکر زبردستی لگوا رھی ھے جو 500 سے ھزار روپے کا ھے آپ موٹروے پر سفر کریں یا نہ کریں پیسے جمع کروادیں جی کروادیئے ھیں اب گاڑیوں کے ٹوکن بھی بڑھا دیئے ھیں جی بہت شکریہ۔ میرے پاس سوزکی 500 سی سی موٹر سائیکل ھے جس کا ٹوکن تقریبا 84 روپے تھا اب کہہ رھے ھیں لائف ٹائم 5000 جمع کروائیں۔ اتنے ٹیکس لیکر بھی گورنمنٹ غریب کی غریب ھے اور عوام امیر کی امیر ھے بس میں تو حیران ھی ھوسکتا ھوں کیونکہ مجھے گھبرانے کی اجازت نہیں۔

Prev محتاط 
Next کھیل

Comments are closed.