اکیلا

اکیلا

محمد اظہر حفیظ

بندہ کلا رہ جاندا اے بہتے یار بناون نال، پنجابی زبان دی بہت مشہور نظم دا شعر اے تے زندگی دا خلاصہ اے،
جیسے جیسے آپ کا حلقہ احباب بڑتا چلا جاتا، ھے اپ اکیلے ھوتے چلے جاتے ھیں۔ میں گاؤں میں تھا تو ناصر شفیق، گوجا، عابد حاجی طفیل دا، حامد رفیق، بھٹو، یوسف یوسی پا عالم دا ، راشد رفیق، زبیر، ریاض، ساجد شفیق سب میرے بہترین دوست تھے اور ماسٹر الیاس بہترین آئیڈل ٹیچر، ان کے ساتھ بنٹے کھیلنا اخروٹ کھیلنا گلی ڈنڈا کھیلنا اور ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے وعدے یاریاں میلے سب ساتھ ساتھ تھے پانچویں جماعت تک کل کائنات یہی تھے پھر چھٹی جماعت میں ھماری حرکات کو دیکھتے ھوئے ابا جی ھمیں ساتھ راولپنڈی لے آئے، اور ھمیں نہیں پتہ چلا دوست کس حال میں ھیں، گوجا شائد جعلی ڈاکٹر ھے بھٹو ٹھیکدار ھے حامد رفیق سدا کا ویلا راشد رفیق این ایل سی ناصر شفیق بسوں کے پارٹس کا کاروبار کرتے ھیں اس کے علاوہ کوئی خیر خبر نہیں اور میں اکیلا راولپنڈی آگیا، چھٹی جماعت شروع ھوئی صاحبزادہ نعیم ،محمد یوسف، خانزادہ، صلاح الدین، حاجی طارق، الیاس قریشی، نوید بیگ، عنصر محمود،عقیل، تنویر، تنویر السلام بلال قادری ، منو شکیل اور بہت سے لوگوں سے ملاقات ھوئی اور دوستیاں ھونے لگی کبھی جھگڑا کبھی دوستی کھیل بدل کر ھاکی، کرکٹ، باسکٹ بال اور ویڈیو گیمز ھو گئے اب وقت گزرنے لگا آئیڈل ٹیچر انگلش کے خالد صاحب اور ھیڈ ماسٹر غازی صاحب تھے مدرسہ ملیہ اسلامیہ ھائی سکول سیٹلائٹ ٹاؤن روالپنڈی کے اچھے سکولوں میں شمار ھوتا تھا، دوستی اگے چل کر حاجی طارق امین، الیاس قریشی، صلاح الدین، یوسف، ابرار، خلیق سے زیادہ ھوگئی، سب پاس ھوگئے اور میں اردو، اسلامیات اور عربی میں فیل ھوگیا سب مختلف کالجوں میں چلے گئے اور میں
سپلی کی تیاری میں لگ گیا ایک دفعہ پھر اکیلا ھو گیا، سپلی پاس کی اور ایف ایٹ کامرس کالج میں داخلہ ھوگیا اب نئے سرے سے دوست بننا شروع ھوگئے، شفاقت، ندیم شہزاد، نعمان، فرید، ندیم قریشی طاھر بشیر فرحان اسلم، عبدالواحد نئے لوگوں سے دوستیاں شروع ھوگیئں سکاوٹنگ، باسکٹ بال کھیل رہ گئے اور استاد معراج خان صاحبمرحوم ، بٹر صاحب اور پرنسپل اکرم صاحب مرحوم آئیڈل ٹیچر ھوگئے بہت قول و قرار ھوئے دامن کوہ اور پیر سوھاہ جانا بہترین مشغلہ تھا میں ساتھ ساتھ پینٹگ اور ڈیزائننگ کی طرف اگیا 1989 میں سب دوستوں کے ساتھ پاس ھو کر بی کام پارٹ ون میں داخل ھوئے اور ساتھ ھی این سی اے میں داخلہ مل گیا یہ سب کامرس کالج میں رہ گئے اور میں اکیلا این سی اے چلا گیا میں زندگی میں بہت دفعہ اکیلا ھوا اب عادت سی بن گئی تھی نئی دوستیاں کرنے کی، این سی اے میں پہلی ملاقات میاں نعیم، سے ھوئی اور پھر گروپ بڑھاھوتا چلا گیا، رضوان قدیر، مظہر منیر، راؤ دلشاد، آفتاب افضل، فائق مغل، اعجاز مغل، جہانگیر قریشی، احمر رحمن، مشرف،معروف خان، ملک اشرف، اقرار چیتا، ضمن ارمغان حاضر، جاوید ٹی، سید آصف حسین زیدی دوست بن گئے درمیان میں اور لوگ بھی اتے جاتے رھے، لیکن کچھ پکے دوست بن گئے، چار سال زندگی کے گزر گئے اور ھم این سی اے سے پاس ھوگئے میں اکیلا اسلام آباد والدین کے پاس، اگیا اور ایک نئے سرے سے زندگی شروع کر دی بہت سارے دوست تھے اور میں اکیلا تھا زندگی کے چوبیس سال گزر گئے تھے اور میں اکیلا اسی دوران شفقت نواز ملک کے ساتھ ملکر ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنائی اور کچھ کامیابیاں اور ناکامیاں حاصل ھوئیں اور دوستوں میں جیا علی، عالیہ امام احسن شیخ، ڈاکٹر یوسف، روبینہ خان، میجر عنائت، امین اقبال، شامل ھوئے اور میری فیلڈ بدلی اور، میں اخبار کی دنیا میں آگیا اب جاوید چوھدری، فیاض ولانہ، نوید اکبر، مجاھد حسین، احمد لطیف، حاجی اعظم، سجاد، وغیرہ سے دوستی ھوگئی نئی دنیا، نئے دوست، کچھ ماہ بعد نوکری بدلی اور دوست بھی اب کائنات اخبار اور نئے دوست محسن رضا، شہریار خان، عاصم رانا، نبیلہ، عاصمہ شیرازی، جاوید، فریحہ، افضال ،کفیل اور بہت سے زندگی میں آگئے، کچھ ماہ گزرے تو ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں چلا گیا، وھاں آظہر شیخ، رضا، فواد فاروقی مرحوم، اویس اور بیت سے دوستوں سے وابستہ ھوگئے پھر پی ٹی وی میں آنا ھوااور محمد معظم، احسن، زبیر، شاھد خورشید مرحوم، کیانی صاحب، شاھد اقبال صاحب، حسنین ملک، رشید مرزا صاحب سے دوستیاں ھوئیں معظم ملک سے باھر چلا گیا، شاھد خورشید فوت ھوگیا رشید مرزا ریٹائر ھوگئے اور میں اکیلا رہ گیا، مجھے آج احساس ھوتا ھے دنیا اور قبر ایک جیسے ھی ھیں دونوں جگہ ھم اکیلے، ماں باپ چلے گئے، بہن بھائیوں کی شادیاں ھو گئیں، سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف اور میں اکیلا، اب میں دوستیاں نہیں کرتا نہ ھی دعوے محبت و اقرار، بس اکیلا رہ گیا ھوں، بیوی بچے اور ایک دوست ان سب کے ھوتے ھوئے بھی میں اکیلا کئی دفعہ ان سب کو ڈھونڈنے نکلتا ھوں پر سب مصروف اور میں اکیلا، بہت سے لوگ زندگی میں آتے ھیں سب کی اپنی مصروفیات ھیں اور میری بھی، مصروف ھونے کے بہانے کبھی فوٹوگرافی اور کبھی ڈرائیونگ، اجکل اکیلے بندے کی سواری موٹر بائیک سنگل سیٹ والا بنوا رھا ھوں دوسری سیٹ سے پھر امید، بند جاتی ھے میں نے آج تک کسی دوست کو نہ چھوڑا، نہ کوئی دھوکہ دیا بس سب مصروف ھیں اور میں اپنی راتوں میں اکیلا جاگ کر سوچ سوچ کر انکے نام لکھ رھا، ھوں کون کون زندگی میں ایا اور کیسے کیسے گیا، جب رھنا ھی اکیلے ھے تو ان سب وعدوں اور محبتوں کی کیا ضروت، میری زندگی کی آخری دوست مجھ سے اکثر پوچھتی ھے تمھارا تو سارا جہان دوست ھے سب تمھیں جانتے ھیں، بہت زندگی کے مزے لیتے ھو، کیا بتاؤں کہ اکیلا بندا تصویریں کھینچ، سکتا ھے پر دکھا کسی کو، نہیں سکتا، میری تصویریں دیکھنے والا اور مشورہ دینے والا دوست سید آصف حسین زیدی دوسال سے زیادہ عرصہ سے بستر پر، پڑا، ھے نہ بات نہ مشورہ بس لیٹا، دیکھتا، رھتا ھے پر میرے پاس اسکو دیکھانے کو تصویرہں نہیں جب سے وہ پیرالائز ھوا ھے میری فوٹوگرافی کی صلاحیت بھی منجمند ھوگئی ھے، افتاب افضل میرا گہرا ترین دوست،بڑے بھائی اشفاق افضل کی وفات کے بعد، میری ھمت نہیں اسکے سامنے جانے کی، جب بھی ملتا ھے ھمت جواب دے، جاتی ھے، اور میں رونا، نہیں چاھتا، احمر رحمن بہت مصروف انسان ھیں انکی عقلمندانہ باتیں میری سمجھ سے باھر ھیں، باقی اب کوئی یاد، نہیں بہت، سے بھائی ھیں پر، دوست نہیں، عمیر غنی بھائی، رزاق وینس بھائی، حسیب بھائی، وسیم بھائی، طارق بھائی، ناصر نعیم بھائی، ذیشان قریشی بھائی، سجاد نبی بھائی، ناصر نعیم بھائی، حاجی عمران بھائی، طاھر بھائی، شکیل اعوان بھائی، یوسف اعوان بھائی اور بہت سے بھائی الطاف بھائی کے علاوہ،
ان سب کی موجودگی میں اکیلا ھونا سمجھ سے بالاتر ھے پر یہ حقیقت یہ ھے کہ اب مجھے اکیلا رھنا اچھا لگتا ھے، اکثر کمرے میں لیٹا، ٹانگ، اوپر، کرکے چھت کو، لگانے کی کوشش کرتا ھوں اور چیک کرتا ھوں قبر، میں ھوں یا کمرے میں آج بھی یہی پتہ چلا چھت زیادہ اونچی ھے اور ابھی زندہ ھوں اور اکیلا ھوں

Prev خورشید 
Next نالائق

Comments are closed.