اگلا جنم

اگلا جنم
تحریر محمد اظہر حفیظ

ہندووں کا دھرم ھے کہ سات جنم ھونگے ھم ھمیشہ اس پر ھنستے رھے۔
پر جب بھی مر کر جینا پڑا ھندو دھرم کی سمجھ آئی کہ شاید وہ اسی مرنے کے بعد جینے کو کہتے ھیں نیاجنم ۔
اور یہ تجربہ بھی اچھا رھا کہ کبھی تو انسان مر کر جیتا ھے تو انسان ھی ھوتا ھے اور کبھی وہ گدھا بن جاتا ھے اور کبھی بندر۔
جو تو باقی ماندہ زندگی مشقت کرتے گزارتے ھیں وہ اپنے آپ کو گدھا ھی سمجھتے ھیں اور جو مر کر جیتے جی الیکشن جیت جاتے ھیں وہ وزیراعظم بن جاتے ھیں۔ سب میرے سوھنے رب کی شانیں ھیں کہ کس کو کیا سے کیا بنا دیں۔
سب اچھے تو وہ ھیں جو پہلی دفعہ ھی مر جاتے ھیں انسان آئے تھے انسان چلے گئے۔ بدنصیب ھیں وہ جو ھر دفعہ مرنے کے بعد بچ جاتے ھیں اور پھر باقی ماندہ زندگی روز مرتے ھیں روز جیتے ھیں روز ایک نیا روپ ھوتا ھے۔
مجھے دوست آفتاب عالم کے ایک سٹیج ڈرامے کا کردار بہروپیا یاد آجاتا ھے جو اپنے بچے کی سالگرہ منانے کیلئے اس دن بھی سٹیج ڈرامہ کر رھا ھوتا ھے تاکہ پیسے کما کر بچے کی سالگرہ کر سکے اور بچہ ناراض ھوجاتا ھے بابا آج بھی گھر نہیں آئے میری سالگرہ ھے ماں اس کو بہلانے کیلئے سٹیج ڈرامہ دکھانے لے جاتی ھے ماں اور بچے کو نہیں پتہ ھوتا سامنے ھنسانے والا بہروپیا کون ھے اور ھنساتے ھنساتے وہ رو کیوں پڑتا ھے۔
وہ مجبور ھے بچے کی سالگرہ میں شریک نہیں ھوسکتا۔ بہروپیا کاکردار کرے گا پیسے ملیں گے تو سب سالگرہ کریں گے۔ اور بچہ ڈرامہ دیکھتے ھوئے اپنی ماں سے کہہ رھا ھے بابا سے تو یہ بہروپیا اچھا ھے کم ازکم ھمیں ھنسا تو رھا ھے اور ھمارے بابا کو یاد ھی نہیں ھے کہ آج میری سالگرہ ھے۔
میرے بابا گندے ھیں نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے۔ آپکے بابا تو سب سے اچھے ھیں۔
والدین مصروف ھیں دن رات بچوں کی خوشیاں منانے کیلئے ضرویات پوری کرنے کیلئے اور اولاد سمجھتی ھے کہ ھمارے والدین کے پاس وقت ھی نہیں ھے ھمارے لئے۔ کون ان کو سمجھائے جنم جنم کی کہانی کہ ماں باپ کتنی دفعہ مرتے ھیں اور جیتے ھیں اولاد کیلئے۔
اور اولاد باآسانی خود کشی کرلیتی ھے کہ ھمارے والدین کو ھماری پرواہ ھی نہیں وہ ھم سے محبت ھی نہیں کرتے۔ پتہ نہیں ھاتھ کی رگیں کٹی لاش اولاد کی ھے یا باپ کی۔
مجھے نہیں پتہ کتنے بچے بچیاں اپنے ھاتھوں اپنے والدین کا خون کر دیتے ھیں خود دفن ھوجاتے ھیں اور والدین مر جاتے ھیں۔
میں نے کتنی ھی لاشوں کو گاڑیاں چلاتے دفتر جاتے، ریڑھی چلاتے میٹرو پر بیٹھتے دیکھا ھے۔
مجھے تو کبھی کبھار ایسے لگتا ھے قبرستان میں زندہ لوگ رھتے ھیں اور شہروں میں لاشے کلف لگے کفن پہنے اکڑے پھر رھے ھیں۔ واقعی انسان مرنے کے بعد اکڑ جاتا ھے سنا تھا اب دیکھ بھی لیا۔
یاد رکھنا ھر بار مرنے پر جنم ضروری تو نہیں کبھی انسان واقعی مر بھی تو سکتا ھے۔ اس لئے مرنے سے احتیاط کیجئے ھوسکتا ھے آپ ھندو نہ ھوں اور آپ کا واقعی انتقال ھوجائے۔ آزمائش شرط ھے۔ سنا ھے جنت میں جانے کیلئے خود مرنا لازم ھے۔ کوشش کر دیکھئے۔
پھر سننے کو ملے گا اللہ بخشے بہت اچھا انسان تھا۔ اگر جواب نہ دے سکیں تو آپ مر چکے ھیں اور اگر جواب دے دیا تو نیا جنم مبارک ھو اور نیا مذھب بھی۔
یقیننا آپ مسلمان تو نہیں ھو سکتے۔ کچھ اور ھی ھیں ۔
اسکی اطلاع اپنی اولاد کو بھی دے دیجئے جو خود تو مسلمان پیدا ھوئی کیونکہ والدین مسلمان تھے اور انکی حرکتوں نے آپ کو دنیا اور آخرت دونوں سے فارغ کردیا۔
بے شک اللہ سب سے بہتر علم رکھتے ھیں اور سب سے بہتر ھدایت دینے والے ھیں۔
آپ سب سے دعاوں کی درخواست ھے۔ جزاک اللہ خیر ۔

Prev توجہ بانٹنے کے طریقے
Next پچاسواں سال

Comments are closed.