این سی اے کا پہلا دن

این سی اے کا پہلا دن

این سی اے کا پہلا دن تھا ھاسٹل میں ایک ڈومیٹری 26 چارپایاں 26 لاکر اور ایک دوسو واٹ کا بلب سب فولنگ بھگت کر تھک چکے تھے میں سامان رکھ کر رکشے والے کو پیسے دئیے ھی تھے واپس مڑاتو سامان غائب محبوب بنگش اور اس کی پانچ ساتھیوں کو بند پلستر کھلائے تو سامان بازیاب ھوا بستر بچھایا سامان لاکر میں رکھا اور سونے کی تیاریاں سب 26 لوگ اپنے بستر پر اب بلب بند کون کرے سب بہت تھکے ہوئے تھے کسی ایک مرد آہن کی آواز آئی ایک ایک جوتا ھوجائے اس بدتمیز بلب کو اور کوئی ایک جوتا بلب کولگا اور لائٹ آف ھوگئی سب سو گئے ابھی سوئے کچھ دیر ھی ھوئی تھی کہ جناب پانی کے بھرے ہوئے شاپر آنا شروع لحاف بستر سب گیلے ھو گئے سردیوں کے دن تھےکپڑے بدلے بستر سائیڈ پر رکھے اور گرم چادروں کے سہارے سونے کی کوشش شروع کی صبح ھوگئی جلدی جلدی تیار ھوئے ڈومیٹری میں آیا ڈومیٹری خالی تھی اور لاکر کھلے تھے میں نے سب کے تالے بدل کر ایک دوسرے کے لاکر کو لگائے اور کالج کے لئے نکل گیا بعد میں یہ سمجھے کہ فولنگ ھوئی ھے کسی نے بھی کسی سے چابی کا نہیں پوچھا اپنے اپنے لاکر کا تالا توڑا اور تیار ھوکر کالج نکل آئے کالج میں بے شمار انسان فولنگ کے لیے انتظار فر ما رھے تھے اور جناب جگہ جگہ سے پانی کے شاپر آرھے تھے اور ھم سب نہارھے تھے مہناز سرور برساتی پہن کر آئی ھوئی تھی اس کو پانی کا سامنا بھی زیادہ کرنا پڑا,
کینٹین پر پہلی ملاقات عبدالرحمان ویٹر سے ھوئی ناشتہ خود کم کیا سینئرز کو زیادہ کروایا اور کلاس کا راستہ ناپا, شام کو ھاسٹل آئے ڈومیٹری گھپ اندھیرا تھا کچھ دکھائی نہ دے وہ گانا شدت سے یاد آیا خدا ھم کو ایسی خدائی نہ دے اپنے سوا کوئی دکھائی نہ دے ساتھ آواز آئی جگر ایک ایک روپیہ نکالو بلب لانا ھے اور حسن اتفاق دیکھیے بلب کی قیمت بھی 26 روپے ھی تھی اب یہ روز کا معمول تھا روز جوتے سے بلب آف کرنا اور شام کو نیا بلب لانا.
اس طرح ھماری اعلی تعلیم کا سلسلہ چل نکلا.
اور ھم فنون لطیفہ میں مہارت حاصل کرنے لگے اور کافی سارے لطیفے یاد بھی کرلیے, پہلے دانشوار جن سے ملاقات ھوئی وہ میاں محمد نعیم تھے جو خود ساختہ دانشور تھے 1990 میں ھمارے ساتھ داخلہ لیا اور شائد ھی سن 2000 یا 2003 میں ڈگری مکمل کی کیونکہ وہ ڈگری پر نہیں علم پر یقین رکھتے تھے, حد درجے کے کاہل انسان واقع ھوئے تھے ھمارا دکھ انکے لیے ماں والا ھی تھا انکو جگانا غسل خانے بھیج کر کالج آجانا خاص طور پر امتحانات کے دنوں میں, اور وہ پھر امتحان دینے نہیں آتے بہت فکر ھوتی امتحان سے فارغ ھو کر سیدھے ھاسٹل جاتا تو حیران ھی رہ جاتا میاں نعیم صاحب اسی طرح ٹوتھ برش منہ میں اور بستر پر سو رھے ھوتے بہت غصہ بھی آتا اور دوست کہتے یار اسکا خیال رکھا کر, کیا بتاتا بس ایک دن کہہ دیا میاں محمد نعیم صاحب جو عقل اپنے کام نہ آئے اس کا کیا کرنا,
میاں صاحب جتنا صاف انسان بھی کبھی نہیں دیکھا نہانا روز کا معمول تھا پر کپڑے کئی کئی ماہ نہیں بدلنے, اور اگر کبھی سوچ لیا شرٹ بدل لی پر بنیان ھرگز نہیں بدلنی,
دانشور ایسے کہ روز رات پرانی انارکلی میرے کے چائے خانہ پر فیصلہ وہی کرتے تھے کہہ بے نظیر کی حکومت آج ختم ھوجائے گی اور بے شرم اتنے کہہ اگلے دن ان وجوھات پر غور ھوتا کہہ کل حکومت کیوں ختم نہیں ھوئی, اور یہ سلسلہ بھی کئی ماہ چلتا رھا اور پھر میں نے جان چھڑا لی پرانی انارکلی سے پر میاں محمد نعیم ابھی ساتھ ھی تھا.

Prev مجھے سمجھ نہیں آرھی
Next این سی اے میں دوستیاں اور دشمنیاں

Comments are closed.