بادشاہوں کے شغل

بادشاہوں کے شغل
تحریر محمد اظہر حفیظ

جب سے ھوش سنبھالی یہ ھی سنا عزت اور ذلت اللہ باری تعالی کے بس میں ھے۔ پھر جب کوئی یہ کام انسان کرنے کی کوشش کرتا ھے تو نمرود اور فرعوں یاد آجاتے ھیں، جو سب اپنے بس میں سمجھتے تھے، کہیں تو میرا رب دنیا کی سب سے بڑی بادشاہت حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا کرتے ھیں اور ان کو سب کی زبانیں بھی سکھا دیتے ھیں پر اپنی رعایا کو ایک وقت روٹی دینے کا اختیار نہیں دیتے۔ اور ساری رعایا کیلئے بنا کھانا مچھلی ایک نوالہ سمجھ کر کھا جاتی ھے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنی غلطی کا احساس ھوتا ھے اور سجدے میں پڑ جاتے ھیں توبہ کرتے ھیں، بے شک سب اختیار میرے رب کا ھے۔
وقت بدلتا گیا ذوالفقار علی بھٹو صاحب جیسا طاقتور وزیر اعظم جیل میں بے بس ھوتا ھے اپنے بیوی بچوں کو ملنے سے ترستا ھے اور آخر کار تختہ دار پر لٹک جاتا ھے۔ چند لوگ جنازے میں شریک ھوتے ھیں کوئی تحریک نہیں چلتی، نعرہ نہیں لگتا ھے۔ پھر نعرہ بنتا ھے بھٹو ابھی زندہ ھے۔ اچھا نعرہ ھے۔ پھر اس نعرے میں تبدلی آتی ھے اور یہ زندہ ھے بی بی زندہ ھے میں بدل جاتا ھے، پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت رھتی ھے اور نہ ھی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قاتل پکڑے جاتے ھیں اور جب نئی حکومت آتی ھے محترم بلاول بھٹو زرداری صاحب نعرہ لگاتے ھیں بی بی شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرو، مجھے تو سمجھ نہیں آتا اس پر رونا ھے یا پھر ھنسنا، صدر ضیاءالحق جیسے طاقتور ترین انسان کی ٹیم اس کو نہ بتا سکی طیارہ ھوا میں پھٹ جائے گا، انکا بھی انٹیلیجینس سسٹم سب سے اچھا تھا، پھر نواز شریف صاحب حکومت میں آئے انہوں نے پیپلزپارٹی کو ناکوں چنے چبوائے اور وہ سیف الرحمن نامی احتساب چیئرمین سے ظلم کراتے رھے، جب اپنی باری آئی باپ کے جنازے میں نہ آ سکے بیمار بیوی کو چھوڑ کر جیل جانا پڑا اور روتے رھے۔یہ سب مقافات عمل ھیں پھر ان سے بھی طاقتور انسان صدر پرویزمشرف آئے کہ میں تمھیں وھاں سے ماروں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے اور کہتے تھے میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ھوں سچ کہتے تھے ملک سے باھر ھسپتال میں داخل ھیں اور فیصلے یہاں ھورھے ھیں، مجھے یاد ھے جب وہ فرعونیت پر اترے تو شریف فیملی کے ماڈل ٹاون گھر کو اولڈ ھوم بنا دیا تھا بہت احسن اقدام تھا ۔ اب کل ایک ٹی وی چینل دیکھ رھا تھا جس پر ایک سمجھدار اینکر اسحاق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ بنا ھوا دکھا رھے تھے اور ساتھ شکوہ کررھے تھے باتھ روم اچھے نہیں ھیں گھر عام سا ھے اس سے تو میرا گھر اچھا ھے۔ بہت اچھا اقدام ھے گورنمنٹ کا شاید یہ ان لوگوں کو لندن سے لا نہیں سکتے، میری سمجھ سے بالا تر ھے، سب کریمنل لوگوں کو واپس لایا جائے اور پاکستان کا پیسہ واپس دلایا جائے، نوازشریف صاحب کی حکومت تھی میں کلر کہار سروس ایریا میں رکا واش روم سے باھر نکلا تو اسحاق ڈار صاحب وضو کر رھے تھے اور پرویز رشید صاحب وضو کر چکے تھے اور باھر ایک سرکاری سبزنمبر پلیٹ والی کرولا گاڑی کھڑی تھی اسحاق ڈارصاحب وضو کر کے باھر نکلے میں ھاتھ دھو کر باھر نکلا تو ڈار صاحب واپس آرھے تھے ھاتھ میں ٹشو پیپر کا ڈبہ تھا میں نے سلام کیا اور رک گیا کیا دیکھتا ھوں اس شخص نے واش بیسن کو خود ٹشو سے اچھی طرح صاف کیا خشک کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے دونوں حضرات نے سادہ کپڑے پہنے ھوئے تھے میں سوچنے لگا یار اتنے امیر لوگ ھیں پھر اتنے سادہ، جب محترم ان کے گھر کے بارے میں بتا رھے تھے بہت سادہ ھے سب کچھ۔ میں سوچنے لگ گیا یہ جو اربوں ڈالر ان کے نام ھیں یہ انکا کیا کریں گے، اور ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ کتنا کماتا ھے اپنی زندگی میں اس حساب سے بھی انکا گھر بہتر ھونا چاھیئے تھا، باقی رب کی رب جانے۔ جس نے جو جرم کیا ھے اس کی سزا اس کو ضرور ملنی چاھیئے، سوچتا ھوں جب کل حکومت بدلے گی تو کیا پناہ گاھیں بنی گالہ میں بھی بنیں گی غریب لوگ اتنی بلندی تک کیسے جائیں گے یا پھر گالف کورٹ گاڑیاں چلائی جائیں گی انکو لیجانے اور لانے کیلئے۔ کہیں ان کیلئے عام معافی تو نہیں ھوگی۔ ھر بادشاہ کو پہلے بادشاہ کا سوانح حیات پڑھ لینی چاھیئے، چاھے وہ صدام حسین ھو یا پھر کوئی اور۔ جس نے رب کے کام کو ھاتھ میں لینے کی کوشش کی وہ ھاتھ سے ھی گیا۔ ایک بیٹا اپنی ماں کو اولڈ ھوم داخل کروا آیا جب اولڈ ھوم والوں نے فون کیا آپکی والدہ کا آخری وقت ھے مل جائیں جب اس بدبخت نے ماں سے آخری خواھش پوچھی ماں میں تمھارے لیئے کیا کر سکتا ھوں تو ماں کہنے لگی میرے پیارے فرمانبردار بیٹے یہاں پنکھے لگوا دو پر ماں جی آپ کا تو آخری وقت ھے پنکھوں کا کیا کریں گی، بیٹا مجھے اب کیا ضرورت۔ تمھیں گرمی بہت لگتی ھے جب تمھارے بچے تمھیں یہاں چھوڑ کر جائیں گے تو تمھیں تنگی ھوگی اس خیال سے مشورہ دیا ھے،

Prev 6 فروری
Next میں ایک پنچھی

Comments are closed.