بدکردار

بدکردار

تحریر محمد اظہر حفیظ

میں بذات خود ایک بدکردار انسان ہوں۔ تمام قسم کی برائیاں مجھ میں الحمدلله بخوبی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے میں نے کبھی باکردار حکمرانوں کا سوچا ہی نہیں ۔ مجھے وہ سارے کریکٹر بطور حکمران قبول ہیں جنکا کوئی کریکٹر نہ ہو۔ اس سے مجھے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔اور میں ایک عیاشی والی زندگی گزار سکوں۔

خزانہ چور یا گھڑی چور ہونا کوئی برائی نہیں ہے۔ کیونکہ میں بھی اکثر وقت چوری کرتا ہوں۔شوگر کا مریض ہوں اور چھپ کر میٹھی چیزیں کھاتا ہوں۔ اگر نماز پڑھوں تو چھوٹی سورتیں پڑھتا ہوں بڑی مجھے آتی ہی نہیں ، دفتر ضرورت سے زیادہ بیٹھتا ہوں۔ اپنے بچوں کے حق چوری کرکے اوروں کی مدد کرتا ہوں۔ میرے کیمروں پر دوسروں کا بھی حق ہے پر انکو ضرورت کے وقت کیمرے نہیں دیتا۔ اپنے ذاتی کلر فوٹو پرنٹر سے سرکار کو فری پرنٹ بنا کر دیتا ہوں۔ میری کرپشن دن بدن بڑھتی جارہی ہے ، اور مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔ میری مالی کرپشن میرے کردار پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے، میری آمدن کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں۔ اکثر ادھار لیکر اخراجات پورے کر رہا ہوتا ہوں۔ اس دفعہ تو گاڑی سے بھی بددیانتی کی پرانے آئل میں کچھ سو زیادہ کلو میٹر چلا دیئے گاڑی بھی تو جاندار ہے۔اس کے بھی کچھ جذبات ہیں۔ گاڑی سے معذرت بھی کی پر زیادتی تو ہوگئی۔ مجھے اونچا میوزک سننا پسند ہے پر جب اکیلا ہوں۔ اگر برابر کوئی دوسری گاڑی برابر آجائے تو آواز بند کردیتا ہوں کہ کہیں وہ ڈسٹرب نہ ہو۔ کبھی سوچتا ہوں کہیں اسکی حق تلفی تو نہیں کررہا جو اس کو میوزک سننے سے محروم رکھ رہا ہوں۔

میرے پاس چند کمزور ڈگریوں والے انسان ہیں انکے پاس ڈگریاں تو ہیں پر کوئی ادارہ انکو تصدیق نہیں کرتا پر انکا کہنا ہے ہمیں کام مت دیں ہم بہت کام کرچکے۔ کام کرنا ہماری توہین ہے، اللہ کا شکر ہے میں اس توہین سے بھی خود کو بچاتا ہوں۔ عدالتیں انکی ڈگریوں پر سٹے دیتی ہیں دفتری کام نہ کرنے پر وہ خود سٹے لے لیتے ہیں۔ میں کیا کیا خوبیاں بیان کرو کہ میں کیسے کیسے بدکردار ہوں۔ کل سیونتھ ایونیو کی سپیڈ لمنٹ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور میں 65 کلومیٹر پر گاڑی چلا رہا تھا۔ کافی دیر اپنی اس بدکرداری کو کوستا رہا۔ موٹروے پر اپنی مالی بدحالی کی وجہ سے گاڑی آہستہ چلاتا ہوں کیونکہ چالان کے پیسے نہیں ہوتے۔ کل ایک منسٹر صاحب کی گاڑی بمعہ اسکواڈ کے یکدم سامنے سے گزر گئی انہوں نے غلط سڑک کراس کی اور انکا بندوق بردار عملہ مجھے گھورتا رہا اور میں ساری رات انکی آنکھوں کی شدت اور غصہ کی وجہ سے سو نہیں سکا ۔ میں اتنا کمزور اور بدکردار ہوں کہ انکی آنکھوں کو نکال نہیں سکا اگر میرے پاس گاڑی ٹھیک کروانے کے پیسے ہوتے اللہ کی قسم ان سے گاڑی ٹکرا دیتا۔ مجھے اپنی یہ بدکرداری اور بذدلی کسی صورت قبول نہیں ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے سارے وزیروں مشیروں کو ایمرجنسی میں ہی دیکھا۔ اشارے توڑ رہے ہوتے ہیں۔ انکے بندوق بردار لوگوں سے بدتمیزی کرکے راستہ صاف کرواتے ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے کہ ملک میں مالی ایمرجنسی کاامکان ہے تو مجھے کچھ عجیب نہیں لگتا کیونکہ ساری ٹیم پہلے ہی ایمرجنسی میں ہے تو مالی ایمرجنسی سے کیا فرق پڑے گا۔ اگر سیاسی بڑے اور دوسرے بڑے سفر کیلئے ایمبولینس استعمال کرلیا کریں تو لوگ راستہ بھی آسانی سے دے دیں گے اور گالیاں بھی کم دیں گے ۔ اس سے انکی دنیا اور آخرت آسان ہوجائے گی۔

میرے سارے فیصلے کوئی اور کرتا ہے میں تو بس دستخط کرتا ہوں۔ لیکن کبھی بھی محمد اظہر حفیظ بقلم خود نہیں لکھتا صرف نام لکھ دیتا ہوں کیونکہ لکھا تو کسی اور نے ہوتا ہے۔ میں کیوں بقلم خود لکھوں۔

میں ایک شاندار سرکاری افسر ہوں میرے پاس کمپیوٹر نہیں ہے پر پرنٹر موجود ہے۔ جسکو اکثر فوٹو کاپی کیلئے استعمال کرلیتا ہوں۔ اس غلط استعمال کو بھی میں بدکرداری سمجھتا ہوں۔ بدکردار جو ہوا۔ مجھے کسی کی آڈیو اور ویڈیو سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ کیونکہ میری تو اپنی بہت سی آڈیو اور ویڈیو موحود ہیں ۔ آپ میرے یوٹیوب چیننل پر دیکھ سکتے ہیں۔

کچھ دوست وزیراعظم بننے کے بار بار خواہاں ہیں اگر وہ شعبہ حکمت میں آجائیں تو اور بہتر پیسے کما سکتے ہیں ۔ کیونکہ انکی ساری زندگی کی پرفارمنس حکیمی زیادہ ہے اور سیاسی کم۔ ہر پاکستانی بزرگ ان کُشتوں کی تلاش میں ہے جو میرے محترم لیڈر صاحبان زندگی کے آخری حصے میں استعمال کرکے آڈیو اور ویڈیو میں اپنا کردار بخوبی نبھاتے ہیں۔

بدکردار میرے لیڈر نہیں میں خود ہوں ۔

میرے لیڈر انصاف پسند ہیں۔ پہلے تیسری صنف کو نادرا کے شناختی کارڈ میں جگہ دی اور پھر مرد و عورت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم ہاوس،میں بھی جگہ دی۔ اور برابری کے جنسی حقوق بھی دیئے۔ حضور کا اقبال بلند ہو ایسے انصاف پسند باکردار لیڈر ہی میرا حق ہیں۔ اور یہی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکتے ہیں۔

Prev یکم جنوری
Next ایک سال

Comments are closed.