بلاوجہ

بلاوجہ

تحریر محمد اظہر حفیظ

بلاوجہ رو دینا ماوں کا خاصہ ھے یا پھر فرمانبردار اولاد کا، ناز صف ماں اٹھا سکتی ھے اس کیلئے کوئی دوسری ھستی کائنات میں موجود ھہ نہیں ، بہن بھائیوں کا پیار، بیوی کا پیار، اولاد کا پیار، دادی دادا کاپیار، نانا نانی کاپیار، چاچا چاچی کا پیار، ماما ممانی کا پیار سب کا مقام اپنی اپنی جگہ خاص ھے پر ماں کے پیار کو پہنچنا یقینا ممکن نہیں، جب بھی امی جی کے گلے لگا وہ موقع خوشی کا ھو یا غمی کا امی جی رو دیتیں تھیں، اور یہ ممکن نہیں کہ ماں روئے اور بچہ چپ رھے، پھر بلاوجہ ھی روتے رھتے تھے، ھم نے خوشی بھی ھمیشہ رو کر ھی منائی یقینا یہ رونا تشکر کا رونا ھوتا ھے، جن بچوں کی مائیں چلی جاتی ھیں اور اپنی خوشیاں انکی قبر پر رو کر مناتے ھیں کچھ احباب یہ صورتحال سمجھ ھی نہیں پاتے، ماں اوھی لبھے جسدی ماں دنیا تو گواچی، میری بیٹیاں اکثر چھوٹی بیٹی کی شکایت کرتی ھیں، بابا جی اماں گھر پر نہ ھوں تو یہ سارے اپنے کام خود کرتی ھے اور نہ روتی ھے نہ تنگ کرتی ھے ، جیسے ھی اماں گھر آتیں ھیں یہ نوابزادی رونا اور فرمائشیں کرنا شروع کردیتی ھیں، میرے پاس تو اسکا کوئی جواب نہیں ھوتا بلکہ نم آنکھوں سے دائیں بائیں ھوجاتا ھوں، انکو کیا پتہ سب موجیں ماں باپ کے سر پر ھی ھیں، اور کون ھے جو روتے کو گلے لگاتا ھے ، میں تو حیران ھوتا ھوں جب لوگ ماں باپ کی موجودگی میں مرشد ڈھونڈتے ھیں، اور ان پر بھی حیران ھوں جو ماں باپ کی قبر پر دعا کیلئے جانے کی بجائے کسی کو مرشد مان اس کی قبر پر حاضری دیتے ھیں بہتر ھے والدین کی قبروں پر جاو اور انکے لئے دعا کرو انکو بھی ٹھنڈ پڑے اور تمھیں بھی، ماں باپ کی خدمت اور جھپی سے زیادہ کہیں اور ٹھنڈ پڑے تو مجھے بھی بتائیں، سب سے بہتر وقت اولاد کیلئے وہ ھے جو وہ والدین کے ساتھ صرف کریں اور والدین کی خوشی اس میں ھے کہ وہ بچوں کو وقت دیں، دکھ تو سارے ھی بڑے ھوتے ھیں وہ کوئی بھی رشتہ ھو بھائی ظفر حسین صاحب کہتے ھیں ویرے بڑا دکھ ھوندا اے ماں باپ نوں دفنان دا پر اس توں وڈا دکھ اے ساتھ کھیڈیاں نوں دفنان دا، پر جو مینوں سمجھ آئی اے اس توں ود وی دکھ اے ھتی کھلائیاں نوں دفنان دا، اللہ سب نوں انناں دکھاں تو محفوظ رکھے آمین، میرے ماں باپ نے تاحیات میرا بہت خیال رکھا، جب بھی کوئی میری امی کے آگے میری تعریف کرتا تو رونے لگ جاتیں وہ اکثر معذرت کرنے لگ جاتے سوری آنٹی اگر آپ کو میری بات بری لگی تو کہتیں نہیں بیٹا خوشی سے رو پڑی کہ میرے بیٹا اچھے کام کر رھا ھے، میرے نانا جی بھی استاد تھے اور میری والدہ بھی استاد تھیں انکو بہت پسند تھا میرا پڑھانا اور جب بھی کوئی میرا طالب علم امی جی کو مل جاتا بس اتنا کہتا سر بہت اچھا پڑھاتے ھیں امی جی رونا شروع کردیتیں، اور دعائیں دیتیں، میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھانے جاتا تھا تو وہ بہت سی دعاوں سے نوازتیں تھیں، اللہ تعالٰی سب کی ماوں کو سلامت رکھیں آمین، چلتا پھرتا رکھیں آمین، صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی عطا فرمائیں آمین، جن کے والدین پردہ فرما گئے ھیں اللہ انکو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین، جس طرح ایک قصائی کی ماں اسکو دعا دیتی تھی جا اللہ تجھے جنت میں موسی علیہ سلام کا ھمسایہ بنائے، میں ھمیشہ دعا کرتا ھوں میرے اللہ میری والدہ کو جنت الفردوس میں بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ھمسایہ بنانا اور میرے والد کو جنت الفردوس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفقت کے سائے میں رکھنا آمین، نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں پڑھتا تھا ایک دن خواب میں میری امی جی فوت ھوگئیں، فورا اسلام آباد آگیا امی جی نے گیٹ کھولا اور میں رونے لگ گیا وہ بھی رونے لگ گئیں کوئی وجہ نہیں پوچھی، کھانا کھلایا پھر جب میری طرف دیکھیں رونے لگ جائیں اور کہیں محمد اظہر حفیظ ایویں نہ رویا کر، جی امی جی سوال کم ھی کرتیں تھیں بس سمجھ جاتیں تھیں، ایسا کہاں سے لاؤں جو بغیر پوچھے سمجھ جائے، اللہ سب کیلئے آسانیاں عطا فرمائیں آمین

Prev میں کیا کروں
Next میں کہاں رھتا ھوں

Comments are closed.