بچپن لوٹ آیا ہے

بچپن لوٹ آیا ہے

تحریر محمد اظہر حفیظ

میری ماں میرا بچپن پھر سے لوٹ آیا ہے ، مجھے بار بار بھوک لگتی ہے، مجھے بلاوجہ رونا آتا ہے، اکیلا گھر سے نہیں نکلتا۔ پارک بھی کوئی نہ کوئی ساتھ جاتا ہے، سب کہتے ہیں باتھ روم کی کنڈی مت لگانا، دوائی مجھے خود کھلاتے ہیں، ہر بات کی اجازت لینی پڑتی ہے، مجھے گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہیں ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر بھی بند ہے، مجھے موبائل پر کوئی گیم بھی کھیلنی نہیں آتی، مجھے ہر چیز میں گائیڈ کیا جاتا ہے، مجھے جاگتے میں اور سوتے میں خوابوں سے ڈر لگتا ہے، میں ایک ہی طرح کے ناشتے، کھانے کھا کھا تنگ آگیا ہوں، آج جہاز دیکھنے کا بہت من کررہا تھا، پر چھت ہر جانے کی کسی نے اجازت ہی نہیں دی، میری ماں آسمانی بجلی کی گرج سے مجھے ڈر لگتا ہے سہم سا جاتا ہوں، میرے بیوی بچے مجھے پوچھتے ہیں بجلی کے گرجنے سے ڈر تو نہیں لگا، ڈرتے ڈرتے نہیں میں سر ہلا دیتا ہوں، پہلے تجھے بتا دیتا تھا اب کس کو بتلاوں، کچھ دن تو مجھے اکیلے کو نہانے کو بھی اجازت نہ تھی ، گھر میں کوئی نہ کوئی نہلاتا تھا ، نہاتے نہاتے بھی تمھاری یاد آجاتی تھی جب کوئی کمر پر صابن لگاتا تھا ۔ یہ تم ہی تھیں جو ایسے نہلاتیں تھیں ۔ اب تو میری کمر بھی سوچتی ہوگی بہت عرصے بعد کمر پر صابن لگایا ہے شاید اس کی ماں پھر سے زندہ ہوگئی ہے، میری ماں مجھ سے خود کمر پر صابن بھی نہیں لگتا۔ مجھے پھر سے پیمپر بھی لگائے گئے ،بچپن کی طرح نہ پیمپر خود لگا سکتا تھا نہ ہی اتار سکتا تھا، عجیب بچپنا ہے لگتا ہے بچپن کی فل ڈریس ریہرسل کروائی جارہی ہے، انگلی پکڑ کر قدم قدم چلنا سکھایا جارہا ہے، دوڑ بھی نہیں سکتا ڈاکٹر کہتے ہیں گرنے کا خطرہ ہے، سب اسی طرح کی آوازیں آتی ہیں، چلو شاباش ناشتہ کرو، چائے گرم ہے ٹھنڈی کرکے پیو، چائے ساتھ رس کھاو گے، دوائی کھا لو، ایک ایک گولی کرکے کھاو، اگر نہیں کھائی جارہی تو گولی پیس دوں، پانی تین سانس لیکر پیو، دیر ہورہی ہے شاباش دوپہر کا کھانا کھاو، اگر دل نہیں کررہا تو شوربے میں روٹی بگو کر دے دوں، شاباش تھوڑی بوٹی بھی کھاو اس سے جان آئے گی طاقت ور ہوجاو گے، اکیلے باہر نہیں جانا، بڑے بھائی آئیں گے تو دوکان سے سب چیزیں لادیں گے، ہر وقت غصے میں رہنا اچھی بات نہیں ہے، چلو شاباش سیب کھاو، ویری گڈ اب بولو الحمدللہ ، جاگر پہنو، جرابیں میں پہنا دیتی ہوں، چلو شاباش واک کرنے چلتے ہیں، کسی سے راستے میں ملنا نہیں ہے، سب کو منہ سے اسلام علیکم کہنا ہے کسی سے ہاتھ نہیں ملانا، تھک تو نہیں گئے، چھوٹے چھوٹے قدم لیکر چلیں، سانس تو نہیں پھول رہا، تھک تو نہیں گئے، گھر جاکر بچوں سے ٹانگیں دبوا لینا، کتنے کمزور ہوتے جارہے ہو، چلو شاباش ایک روٹی اور کھاو، خبردار جنک فوڈ کا نام بھی لیا تو، چلیں شاباش بسم اللہ پڑھ کر پانی پیئں، پہلے پڑھیں یا شافی ہوکافی اب دوائی کھائیں،

بار بار سوال کیوں کرتے ہو، بچوں سے باتیں کرو، بچوں کو فاصلے پر بیٹھاو، ماسک لگا لیں اور بچوں کو بھی ماسک کے ساتھ بلائیں، کوئی انفیکشن نہ کروا لینا، بس فون کے استعمال کا وقت ختم ہوا، یہ لیں فون سن لیں بات مختصر کیجئےگا، کیا کہہ رہے تھے، میرے بھائی جان۔ کچھ بھی تو نہیں بس کہہ رہے تھے ساری عمر اسں کی نہیں سنی ہن دھیان کرو، آپ باز نہیں آسکتے، ہر وقت شرارت کے موڈ میں رہتے ہیں۔ فارغ وقت میں کوئی کتاب ہی پڑھ لیا کریں، یار بابا آپ کسی سے ہاتھ کیوں نہیں ملا سکتے، کب آپ کو ڈاکٹر ہاتھ ملانے کی اجازت دیں گے، میری بیٹیو جب میں بڑا ہوجاوں گا تو سب اجازتیں مل جائیں گی۔ میرے دوست بھی پھر مجھ سے مل سکیں گے اور شاید میں انکے ساتھ باہر گھوم پھر بھی سکوں گا۔ کیسی باتیں کرتے ہیں بچوں سے ، کچھ سوچ سمجھ کر بات کیا کریں اب آپ چھوٹے تو نہیں ہیں۔ ہوں تو میں ان سب کا بڑا پر آجکل بوجہ بیماری بچپن لوٹ آیاہے، سب کچھ ان سب کی اجازت سے ہی ہے، سوتے میں اگر ڈر کر اٹھ جاوں تو اس کے بھی جواب دینے پڑتے ہیں، کیا بات ہے سوئے ہوئے ڈر رہے تھے، کیا خواب دیکھ رہے تھے ، اب بندہ بشر کیا بتائے جن چیزوں سے پہلے ڈرتے تھے اب وہ ہی واپس لوٹ آئیں ہیں ڈرانے کو اور بچپن لوٹ آیا ہے ، پہلے تو بس اتنا کہتے تھے امی جی بس سوتے میں ڈر گیا تھا اور وہ اسی جواب سے مکمل بات سمجھ جاتی تھیں پر اب امی جی نہیں رہیں تو بات پوری بتاو تو بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی کہتے ہیں یہ بھی کوئی ڈرنے کی بات ہے ۔ اور گلے ملنے سے بھی ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے، پہلے امی گلے لگاتیں تھیں اور ڈر بھاگ جاتا تھا، اب ڈر وہیں موجود رہتا ہے اور پوچھنے والے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے اگر رب باری تعالی عمر کے کسی بھی حصے میں بچپن واپس لٹائے تو اس کو والدین بھی واپس لٹا دینے چاہیں ، اس کیلئے کیا ممکن نہیں ہے، وہ آپ کو تو پتہ ہی ہے یتیم اور مسکین بچوں کا بچپن بہت تکلیف دی ہوتا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، کوئی کندھا بھی نہیں ہوتاکہ بچہ سر رکھ کر ہچکیاں لیکر رو سکے اور کہہ سکے امی جی مجھے ڈر لگتا ہے ، اور کوئی نہیں کہتا، نہ میرا لعل تیرے ابوجی ڈر کو ماریں گے تو ہمارے ہوتے کیوں ڈرتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی ہچکی لیکر رونے دیتا ہے، کیا بات ہے ہر وقت روتے رہتے ہوں ، بہت مشکل ہوتا ہے ہچکی چھپا کر خاموشی سے رونا کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے، عجیب سا بچپن ہے یہ جو اب لوٹ کے آیا ہے ۔

Prev ذرا سوچئے
Next تبدیلی

Comments are closed.