بھولنے کی عادت

بھولنے کی عادت

تحریر محمد اظہر حفیظ

پتہ نہیں میں کس مٹی کا بنا ھوا ھوں، مجھے نفرتیں بھولنے کی عادت ھے، اور اس عادت کے سبب میرے اپنے پرائے سب مجھ سے ناراض رھتے ھیں، بہت یاد رکھنے کی کوشش کرتا ھوں پھر سوچتا رھتا ھوں یاد کیا رکھنا تھا اور جن سے ناراضگی ھو انہیں سے پوچھنے چلا جاتا ھوں کہ ھمارا معاملہ کیا ھے اور دیکھنے والے ناراض ھوجاتے ھیں کہ بتایا بھی تھا کہ اب ان سے بات نہیں کرنی، مجھے یاد نہیں رھتا اور یہ بات میرے نزدیکی لوگوں کو بھی یاد نہیں رھتی، جن لوگوں نے میری زندگی اجیرن کردی انکو بھی روتے ھوئے قبر میں اتارا اور بعد میں احباب نے یاد کروایا کہ انہوں نے مجھے کتنا نقصان پہنچایا، مرے ھوئے سے کیا بدلہ لینا بھول جانا ھی بہتر ھے،

میں بدلنا نہیں چاھتا اور نہ ھی یادداشت بہتر کرنے کی گولیاں کھاتا ھوں، مجھے اپنے بھولنے کی عادت بہت عزیز ھے، مجھے کوئی راستہ نہیں آتا اور تو اور کئی دفعہ تو میں نے گوگل کو بھی پڑھنے ڈال دیا اس کا سسٹم بھی راستہ بھول گیا، اگر آپ اس کا تجربہ کرنا چاھتے ھیں تو فردوس مارکیٹ لاھور کو مڑنے والے راستے پر غالب مارکیٹ کو ٹرن لے لیجئے انشاءاللہ گوگل بھی آپ کو نہیں روکے گا پھر چکر لگا کر واپس آجائیں، کیونکہ میں ھمیشہ ھی ایسے کرتا ھوں،

مجھے بس گھومنا اچھا لگتا ھے نہ منزل کے چکر میں ھوں اور نہ ھی کبھی اس کی تلاش کی ھے، منزل منزل ڈھونڈنے والوں کو ملتی ھے، میں ھمیشہ سے ھی لاپتہ ھوں، آج پشاور ، کل باغ، پرسوں رحیم یار خان، ترسوں حیدر آباد مجھے کوئی کیسے تلاش کرے، مجھے میں خود کئی کئی برس نہیں ملتا، جب مل جاوں تو یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، درد آشنا ایک ٹرانسمیشن کی پی ٹی وی کیلئے اس کے بعد آج تک اگر مجھے جسم میں کہیں بھی درد ھوا یہی سمجھتا رھتا ھوں کہ درد کسی اور کو ھو رھی ھے بس درد آشنا ھونے کی وجہ سے مجھے محسوس ھورھی ھے، ایک فلم میں دو پیار کرنے والوں کے درمیان ڈائیلاگ تھا “کہ تینوں تاب چڑے تے میں ھوکاں” مجھے ایسے لگتا ھے درد کسی اور کو ھے اور ھائے امی جی ھائے امی جی میں کر رھا ھوں،

میں تو کبھی کسی سے ناراض بھی نہیں ھوتا ناراض ھونے کیلئے تو بہت گہرے تعلق کی ضرورت ھوتی ھے، اور مجھے تو یاد ھی نہیں رھتا کہ میں کون ھوں، تو کسی سے گہرے تعلق کیسے بناوں، کچھ عرصے سے طبعیت ناساز رھتی ھے بیچ میں بھول جاتا ھوں اور پھر صحت مند زندگی گزارنا شروع کردیتا ھوں اور کبھی کبھی طبعیت ٹھیک ھوتی ھے تو یاد ھی نہیں رھتا خرابی صحت کا سوچ کر دھیمے دھیمے چلتا ھوں، مجھے اب یہ سب اچھا لگتا شروع ھوگیا ھے، لوگوں کی مجھے زیادہ کیئر پسند نہیں ھے بعض دفعہ میں چڑ بھی جاتا ھوں، میرے اپنے ھیں جو میرا میری ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ھیں، مجھے اکثر گھر کی لوکیشن بھی بھیجتے رھتے ھیں میں اس کے مطابق گھر آجاتا ھوں،

مجھے ڈر لگتا ھے اس وقت سے جب آئی کسی اور کی ھو اور مجھے پتہ نہ چلے اور میں مر جاوں یا فرشتہ مجھے لینے آئے اور میں خود کو پہچاننے سے قاصر ھوجاوں اور وہ واپس چلا جائے اور میں بچ جاوں، بھولنا ایک نعمت خداوندی ھے اگر مسکرانا چاھتے ھیں تو بھولنا سیکھئے یا پھر سلگتے رھیئے ان سب باتوں پر جو اسی مقصد کیلئے کی گئی ھیں۔

Prev میری حرم
Next رضیہ سلطانہ

Comments are closed.