تصویریں

تصویریں

تحریر محمد اظہر حفیظ

تصویریں بناتے اور تصویریں لکھتے عمر بیت گئی اب عمر کے اس حصے میں ہوں تصویر سامنے ہوتی اور سوچنے لگ جاتا ہوں اس کو لکھنا ہے یا بنانا ہے کبھی پہاڑ بناتا ہوں کبھی پہاڑے لکھتا ہوں ،

.ایک ایک پتہ ٹہنی، تنا، اٹھاتا ہوں جنگل بناتا ہوں پھر اس پر گھونسلے بناتا ہوں ان میں پرندے آباد کرتا ہوں اور پھر رات بھر جاگتا ہوں اس کی حفاظت کرتا ہوِں اور اس جنگل کا صبح احوال لکھتا ہوں ۔ پرندوں کو دانہ ڈالتا ہوں پانی پلاتا ہوں جب وہ چہچہاتے ہیں تو انکی فلمیں بناتا ہوں ۔ زمین پر رستے بناتا ہوں پھر ان رستوں کے کنارے بناتا ہوں کنارے کنارے چلتے ہوئے انکو چشمے بناتا ہوں ۔ پھر اس میں مچھلیاں چھوڑتا اور پکڑتا ہوں۔ باقی بچ جانے والی زمین پر گھاس اگاتا ہوں پھول بناتا ہو اگر خواب اچھا لگے تو اس کی تصویریں بناتا ہوں ورنہ لکھتا ہی جاتا ہوں ۔ ایک عجیب فطرت کا انسان ہوں اپنے قریبی دوستوں کو کبھی کے ٹو اور کبھی نانگا پربت بناتا ہوں حد تب ہوجاتی ہے جب نانگا پربت کو ماونٹ ایورسٹ بناتا ہوں پھر اپنی پسند کے کوہ پیماوں کو یہ سب سر کرواتا ہوں جب دل بھر جائے تو اس تصویر کو مٹا کر ایک اور نئی تصویر بناتا ہوں ، کئی دفعہ تو پہاڑوں کو صحرا بنا دیتا ہوں۔ رب کا خلیفہ ہونے کے تمام اختیار عمل میں لاتا ہوں۔ بڑے بڑے میدان بناتا ہوں کبھی ان میں گھوڑے دوڑاتا ہوں اور کبھی کرکٹ کے میچ کرواتا ہوں رب نے مجھے آزاد پیدا کیا اور میں آزاد ہی رہتا ہوں۔ میری ساری تصویریں میری ساری تحریریں میری اپنی ہیں بناتا ہوں مٹاتا ہوں لکھتا ہوں مٹاتا ہوں ۔ نہ تو تصویریں کسی کے لیے بناتا ہوں اور نہ ہی تحریریں کسی کیلئے لکھتا ہوں میں ایک اپنی ہی طرز کا واحد ادارہ ہوں خود کیلئے خود ہی کام کرتا ہوں۔ کبھی آرام کرتا ہوں کبھی میں کام کرتا ہوں ۔ صرف وہی کرتا ہوں جو جی میں آئے۔ باقی صاف انکار کرتا ہوں ۔ خود ہی کماتا ہوں خود ہی خرچ کرتا ہوں ۔ اللہ کے آگے جھکتا ہوں اور محمد صلی الله عليه وسلم کو سلام پیش کرتا ہوں باقی بس آرام کرتا ہوں میری تصویریں میری تحریریں میری دوست ہیں جیسے میں کہتا ہوں ویسے بن جاتی ہیں۔ کبھی صحرا، کبھی پہاڑ کبھی سمندر نہ جانے کیاکیا۔ میں لکھتا ہوں بناتا ہوں مٹاتا ہوں ۔ میری ہر تحریر ہر تصویر میرے سے منسوب ہے ایک مکتوب ہے۔ میں گاؤں بناتا ہوں شہر بساتا ہوں کسی کو گاوں کسی کو قصبہ کسی کو تحصیل اور کسی کو ضلع بنا دیتا ہوں ۔ اگر مجھے پسند آجائے تو اس میں رہتا ہوں تصویریں بناتا ہوں اور جب دل بھر جائے اس کو مٹی بنا کر دوبارہ بنانا شروع کردیتا ہوں۔ مجھے بنانا مٹانا اچھا لگتا ہے۔ اب میں پانی میں ایک شہر بسانے جارہا ہوں کشتیاں بناوں گا ان کو پانی میں چلاوں گا۔پانی کا شہر بناوں گا پھر ڈر کر رک جاتا ہوں کہیں وینس ہی نہ بن جائے اور جب میں اس کو مٹاوں گا تو پانی اور کشتی کو مٹی کیسے بناوں گا۔مجھے بنانے اور مٹانے کی عادت ہے کئی دفعہ تو اپنی ذات کو بناتا ہوں اور پھر اسکی نفی کرتا اس کو مٹا دیتا ہوں۔ بہت سے لوگ مجھ کو گرانے آتے ہیں پھر پریشان حال واپس چلے جاتے ہیں جب مجھے خود کو خود ہی گراتے دیکھتے ہیں۔ سوچتے تو ہوں گے کس مٹی کا بنا ہے ۔ انکو کون بتائے میرا تو کام اور شوق یہی ہے تصویریں بنانا اور تصویریں لکھنا۔ ایک دن آئے گا جب لکھنے والے لکھیں گے اور تصویر بنانے والے تصویریں بنائیں گے پر موضوع کوئی اور نہیں میں ہوگا۔

جن کے اندر شہر بستے ہیں

انکو کیا کہ وہ کہاں رہتے ہیں

Prev بائیکاٹ
Next سیاست

Comments are closed.