تصویر

تصویر
تحریر محمد اظہر حفیظ
سامنے میرے تصویر تھی اور میں اسکو بنانا نہیں چاھتا ھوں لکھنا چاھتا ھوں سنانا چاھتا ھوں پڑھانا چاھتا ھوں۔ 
پندرہ گھنٹے کی مسافت کے بعد بہت تھکاوٹ تھی لیکن صبح جب آنکھ کھلی تو تصویر سامنے تھی۔ 
گیسٹ ھاوس کی پہلی منظر پر میرا کمرہ تھا اگست کا مہینہ تھا اور بالکونی میں کیا گیا وھیں پر رہ گیا آج سے آٹھ سال پہلے اور وھیں پر ھوں۔ 
میں نے اپنے سامنے تصویر دیکھی بھاگ کر اندر گیا کیمرہ اور کیمرہ سٹینڈ لیکر آیا اور تصویر دیکھنے لگآ۔ بارہ ایم ایم کے زاویے پر پہلی منزل سے تصویر تھی دائیں طرف بچوں کا سکول تھا بچے سکول کی چھت پر بیٹھے تھے نیلی یونیفارم، لال سویٹر، نیلا سکارف، سفید شلواریں کالے جوتے ، سفید جرابیں کچھ بلند آواز میں پڑھ رھے تھے، سکول کے ساتھ لکڑیوں کا ٹال تھا شاید سردی سے بچنے کا واحد ذریعہ، ٹال پر ایک بڑے سائز کا میزان بھی تھا۔ ھر طرف کیل،دیار،پڑتل،چیڑ کے درخت بغیر سایہ کے یہاں شجر سایہ دار کوئی نہیں تھا، سرسبز،پر سبز بھی کچھ پیلا پیلا سا شاید سردی کی وجہ سے گہرا سبز نہیں تھا بیچ میں جگہ جگہ لال ھری لوھے کی جستی چھتوں والے گھر ، کچھ گھروں سے دھواں نکل رھا تھا اور کچھ سے گھر والے،ان کے پیچھے پہاڑ تھا اور پہاڑ اور گھروں کے درمیان دریائے نیلم شور مچاتا جا رھا تھا پانی کم تھا پر شور زیادہ،پہاڑ پر کئی گلیشیئر نیچے کو گرتے ھوئے نظر آرھے تھے ایک جگہ آبشار تھی تھوڑی توجہ مرکوز کی تو پتہ چلا پن چکی ھے ،واہ جی واہ کیا بات ھے پہاڑ کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ھوئی تھیں اور میرے سامنے ایک کیل کی لکڑی کا دومنزلہ گھر تھا سارے کا سارا لکڑی کا بہت خوبصورت کیا بتاوں۔ اس کی لکڑی کی گرل پر کچھ تیز رنگ کے کپڑے سکھانے کیلئے لٹکائے ھوئے تھے اس گھر کے سامنے وسیع لان تھا دو گائیں بندھی ھوئی تھیں چار بکریاں اور ایک خچر آمدورفت کیلئے یہ کیا باھر ایک جیپ بھی کھڑی تھی جس کو حد سے زیادہ لمبا کر لیا گیا تھا ڈرائیور سمیت بیس لوگ بیٹھ جاتے تھے۔ اگلی سیٹ پر بیٹھنا آسان تھا اور پچھلی پر ناممکن، جس طرح سڑکیں دشوار گزار اسی طرح اس جیپ میں بیٹھنا بھی دشوار۔ اپنے بائیں طرف دیکھا تو کچھ گھر تھے اور اس کے پیچھے پہاڑ گھر کی دیوار پر کھڑا دیسی مرغا ویسے ھی اذان دے رھا تھا جیسے ھمارے ھاں رنگ بھی بلکل ویسے سیالکوٹی مرغا لگ رھا تھا شاید خاندانی بھی ۔ تھوڑی نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتا ھوں ھوا کے زور پر ایک طرف جاتے بادل مسلسل دیکھنے پر ایسے محسوس ھورھا تھا یا تو میں اڑ رھا ھوں اور بادل ٹھرے ھوئے ھیں یا پھر بادل ھوا کے دوش پر ھیں اور میں کھڑا ھوں۔
میرا دیکھنے کا زاویہ تو پچاس ایم ایم تھا پر میرے کیمرے پر بارہ ایم ایم کا لینز لگا تھا اور غالبا میں ایکسو چالیس کے زاویے پر دیکھ رھا تھا۔ جب اس سارے منظر کو ایک ساتھ دیکھتا تھا تو جو بتا رھا ھوں وھی تصویر بنتی تھی لکڑی کی بارڑ لکڑی کی دیواریں،لکڑی کی چھتیں اور شاید لکڑی کے بنے لوگ، کیونکہ اتنی سادگی اورخوبصورتی مٹی میں مشکل تھی،کچھ چھتیں ستاروں کی طرح چمک رھی تھیں اور گھروں کی لکڑی سے بنی چاردیواری دیکھ کر کسی انگلش فلم کا منظر نظر آرھا تھا اتنی دیر میں سید آصف حسین زیدی کی آواز آتی ھے میاں صاحب فوٹو بنا لو ورنہ فوٹو نکل جائے گی مرشد فوٹو بنا بھی لی ھے اور یاد بھی کرلی ھے۔یہ تو ایک تصویر ھے کیل نیلم ویلی آزاد کشمیر کی میں لے کے چلوں گا چائنہ،کینیا،پاکستان اور دکھاوں گا ایسی بہت سی تصویریں ۔ آپ دیکھ سکیں گے یہ سب میری تصویریں 23 مارچ 2019 کی شام پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں ھونے والی میری تصویری نمائش میں اور میں ان کے بارے میں کچھ نہیں بتاوں گا وہ خود باتیں کریں گی اگر ھر تصویر ھزار لفظ بولے تو مجھے مت بتائیے گا اور اگر تصویر چپ ھو تو مہربانی فرما کر آپ ھرگز چپ نہ ھوئیے گا میری راھنمائی کیجئے گا ویسے میرا دعوی ھے ھر تصویر ھزار لفظ بولے گی تشریف لائیے گا اور تصدیق کیجئے گا تنقید کیجئے گا۔ تصویریں بولتی ھیں ھزاروں الفاظ سے بہتر۔
میری فوٹوگرافی کی نمائش ضرور دیکھنے آئیں اور میرے دعوی کی تصدیق کریں۔ تصویریں دیکھنا اور دکھانا آسان کام ھے پر انکو بیان کرنا انتہائی پیچیدہ۔ کوشش کی ھے کوئی بھی تصویر گونگی بہری نہ ھو۔ ھر ایک تصویر سے تمیز والی آواز آئے گی شور والی ھرگز نہیں۔ انشاءاللہ مایوسی نہیں ھوگی۔ 
تشریف آوری کا شکریہ

Prev اگر
Next سسک سسک کر رونا اور بس مسکرانا

Comments are closed.