تنہا

تنہا
تحریر محمد اظہر حفیظ
سب لوگوں کی زندگی میں مختلف اوقات میں مختلف چیزیں اھم اور غیر اھم ھوتی ھیں اسی طرح ھم کبھی کسی کے لیے سارا جہاں ھوتے ھیں اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ مجھے تمھاری ضرورت ھے مجھے تمھاری ضرورت نہیں ھے میں صرف ایک لفظ کا اضافہ ھے ۔ میں نے ھمیشہ دوستوں کی رائے کا احترام کیا اور انکی سب باتیں مانیں جسکی وجہ سے آج تنہا کھڑا ھوں۔ لیکن مجھے کوئی افسوس نہیں ۔ سب کے پاس اپنی فیملی ماں باپ بہن بھائی دوست احباب ھوتے ھیں شاید میرے پاس بھی ھوں۔ نئے دوست بنانے سے تو بہت عرصے سے تائب ھوں اس عمر میں تجربے نہیں کرنا چاھتا واقف ایک زمانہ ھے اور رھے گا۔ سب سے مسکرا کر ملتا ھوں دوست ھوں یا دشمن کوئی تمیز برقرار نہیں رکھی۔ زندگی گزر رھی ھے اس دفعہ پہلا لوک ورثہ میلہ آیا جس کے صرف آخری دن گیا صرف چند گھنٹے کیلئے وہ بھی بیوی بچوں نے ذبردستی بھیج دیا ۔ ارادہ تھا کہ روھتاس فورٹ جاوں گا اور ضیغم چوھان اور میجر ارشد ملک صاحب کا ایونٹ دیکھوں گا چچا کے بیٹے کی شادی تھی بڑے بھائی وھاں چلے گئے اور بھتیجی چاچو ھماری یونیورسٹی کا فنکشن ھے جی بیٹا بارہ بجے سے شام پانچ بجے تک جی بیٹا آپکی کوئی مصروفیت نہیں بیٹے فارغ ھوں اب کوئی بھی ایونٹ چھوڑنے کا بہانہ مل جائے فورا چھوڑ دیتا ھوں سفر کرنے کو دل نہیں کرتا ۔ میں نہا دھو کر تیار ھوگیا چاچو جی میری دوست نہیں آرھی میں نے بھی نہیں جانا جی اچھا بیٹے بابا آپ لوک ورثہ ھو آئیں اور سب نے کہا تو چلا گیا گھومتا رھا تصاویر بھی کم ھی بنائیں کچھ چوڑیاں خریدیں بیگم کیلئے اور واپس آگیا کوئی نئی تصویر نہیں تھی اس لئے گھومنا ھی مناسب سمجھا ۔ میلہ بہتر تھا پر میں بہتر نہیں تھا۔ سامان اٹھایا اور واپس نکل آیا ۔ پھر اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتا رھا ایف ٹین سے بیٹی کیلئے ایک جیکٹ خریدی جو اس کو پسند نہیں آئی اور واپس گھر کو ھولیا۔ پہلی دفعہ فتح جنگ ملک عطا صاحب کا میلہ چھوڑا بیل دوڑ نیزہ بازی روھتاس بائیکر ریس چھوڑی اور لوک ورثہ میلہ چھوڑا ساری زندگی میں اتنے ایونٹ ایک ساتھ پہلی دفعہ چھوڑے اسی خیال میں اسلام علیکم کی آواز آئی سر کیسے ھیں جی شکر الحمدللہ سر میری اور میری بیٹی کی ایک تصویر بنا دیں جی بہتر تصویر بنا دی اور بھائی چلے گئے نہ نام بتایا نہ کوئی رابطہ اب اس ایک تصویر کو کیا کروں ایسی بہت سی تصاویر ھیں جن کو ایک فولڈر میں ڈال دیتا ھوں ۔ پر پہلی دفعہ ڈیٹا کمپیوٹر پر کاپی نہیں کیا بھلا ایک تصویر کو کیا کاپی کروں ۔ پی ٹی وی ھیڈ کوارٹر ٹرانسفر ھوگئی ھے شاید یہ زندگی کے پہلے چند دن ھیں جو بغیر کیمرہ سفر کرتا ھوں اور اسکی کمی بھی محسوس نہیں ھوتی۔ روزانہ لیپ ٹاپ کا بیگ اور میں دفتر جاتا ھوں صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک دفتر بیٹھتا ھوں اور پھر گھر بیوی بچے انسولین دوائیاں نیند ۔ٹی وی دیکھنا کافی عرصے سے چھوڑا ھوا ھے فلم کبھی پوری دیکھی نہیں۔ اس لیئے ایک ھی فلم کئی کئی بار دیکھ لیتا ھوں محسوس ھوتا ھے جیسے پہلے بھی دیکھی ھوئی ھو۔ اب دوستیاں اور دشمنیاں نہیں پالنا چاھتا۔ تنہا رھنا چاھتا ھوں ۔ بیوی بچے پالنے کی اللہ توفیق اور ھمت دے دیں تو کافی ھے ۔ میں خوش ھوں ۔ اور اللہ کا شکر گزار ھوں ۔ مجھے جو بھی جو سمجھتا ھو مجھے فرق نہیں پڑتا۔ کوشش کرتا ھوں کسی کی دل آزاری نہ ھو اگر ھوجائے تو معافی مانگ لیتا ھوں۔ جس نے کہا چھوڑ دو چھوڑ دیا جس نے کہا اتار دو اتار دیا جس نے کہا دوبارہ نظر مت آنا غائب ھوگیا۔ اور کیا خدمت کروں دوستوں کی۔ اس سب کے باوجود مجھے جب کوئی آواز دیتا ھے تو سنتا بھی ھوں اور دوڑا چلا جاتا ھوں۔ مجھے معاف کرنا اور معافی مانگنا دونوں پسند ھیں کچھ دوستوں نے میرے اندر انا ڈالنے کی کوشش کی پر میں بال بال بچ گیا۔ ضد شاید ویگن پر لکھی ھی اچھی لگتی ھے ضد نہ کر پیارے اسی آپ بڑے ضدی آں۔ کچھ دوستوں کا خیال ھے کہ میری تحریریں اور میں دو مختلف چیزیں ھیں شاید ایسا ھی ھو۔ 
پر مجھے سمجھ نہیں آرھی کہ میں انکی سوچ کے مطابق کیسے بنوں تحریر بن جاوں یا ایسا ھی رھوں ۔ میرے فوٹوگرافی کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا سب بہترین چل رھا ھے سب نیزہ باز گھوڑے دوڑا رھے ھیں بیل دوڑ ھورھی ھے کتوں کی دوڑ بھی جاری ھے روز صبح سورج نکلتا ھے شام کو غروب ھوتا ھے بائیکر ریس لگا رھے ھیں دھمال ھورھی ھے بلوچ رقص خٹک ڈانس لڈی اونٹ ڈانس گھوڑا ڈانس شمالی علاقوں کا رقص جاری ھے کھڈی پر کھدر بن رھا ھے کھسے سل رھے ھیں سجی پک رھی ھے چپل کباب کی خوشبو آرھی ھے پان کھائیں گے ایک آواز آئی جی پان نہیں کھاتا چائے بہت شکریہ وقار بھائی ریزیڈینٹ ڈائریکٹر راولپنڈی آرٹس کونسل پچھلے 30 سال سے دوست ھیں بہت محبت اور شفقت سے پیش آئے ۔ چائے انھوں نے پلا ھی دی کام کے حوالے سے بات ھوئی پنجاب کے سٹالز کے روح رواں تھے ۔ سب وھی تھا گاڑی میں آکر بیٹھا تو بوٹوں پر دھول بھی اتنی ھی پڑی ھوئی تھی اور ٹریفک شدید پھنسی ھوئی تھی وزیراطلاعات پنجاب اپنے گارڈز کے ساتھ پیدل جارھے تھے لیکن میری توجہ کا مرکز نیلے پینٹ کوٹ میں ملبوس لمبے بالوں والا لڑکا تھا جو تقریبا آدھے گھنٹے سے کنگھی کئے جارھا تھا ٹریفک چل پڑی پر کنگھی جاری تھی میں نے ھر طرف دیکھ لیا کوئی نظر نہیں آیا جس کیلئے وہ کنگھی کر رھا تھا شاید تنہا تھا اور مصروف رکھے ھوئے تھا اپنے آپ کو اور گنگنا رھا تھا نئے کپڑے پہن کر جاوں کہاں میں بال بناوں کس کیلئے۔

Prev باپ
Next فاطمہ اظہر

Comments are closed.