جج 

جج 
تحریر محمد اظہر حفیظ

مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ جج کیا ھوتا ھے گاوں میں فیصلے نمبردار کیا کرتے تھے۔ اور میں فیصلہ کرنے والے کو نمبردار ھی سمجھتا تھا۔ پھر ھمارے والد صاحب کے کزن مشہور نعت خوان چچا عبدالروف روفی صاحب کا نام سننے کو ملا اور انھوں نے نیلام گھر میں پہلی دفعہ گانا گایا تھا۔ مجھے تو بہت اچھا لگا پر شاید فیملی خوش نہ تھی جب چچا عبدالروف روفی کے بارے میں بات ھورھی تھی پہلی دفعہ ابا جی کے منہ سے جج کا لفظ سنا وہ میرے چھوٹے چچا شفیق سے پوچھ رھے تھے جج کی کردا اے جج چچا روفی کے چھوٹے بھائی کا نام تھا سب انکو جج کہہ کر بلاتے تھے وجہ مجھے معلوم نہیں اور ان سے چھوٹے بھائی کو ھم سب میاں صاحب کہتے تھے اب جج صاحب بھی نعت خواں ھیں اور میاں صاحب اسلام آباد کالج میں پروفیسر ھیں۔ تو میرا پہلا تعارف یہ تھا کہ چچا روفی کے بھائی کو جج کہتے ھیں۔ یا فیصلے کرنے والے کو جج۔ پھر ھم شہر میں آگئے تو پتہ چلا کہ جج تو کئی قسم کے ھوتے ھیں، سول جج،سیشن جج،ھائی کورٹ کے جج،سپریم کورٹ کے جج،اور ڈیم بنانے والے جج۔
پھر میں نے بہت سے بڑے بڑے جج دیکھے جن کو چیف جسٹس کہا جاتا ھے جن کی عدلیہ کے علاوہ ھر چیز پر نظر ھوتی ھے، وہ یہ نہیں دیکھتے کتنے کیسوں کا فیصلہ ھونا ابھی باقی ھے پر سو موٹو ایکشن ھر وقت لینے کو تیار ھوتے ھیں۔ کوئی سابقہ جج خواتین کے ساتھ ھراسمنٹ کرے یا پھر ڈانس کرے یہ انکے دائرہ کار میں نہیں آتا، بس وہ دیکھتے ھیں ھوا کس طرف سے چلی اور اس کی گرفت میں کون آتا ھے۔ میرا دل کرتا ھے کبھی اس سارے جہاں کی عزت کے مالک سے سوال کروں میرے اللہ کس کو کیا کیا اختیار دیا ھے۔ کسی چیف جسٹس کا بیٹا پیسے لیکر فیصلے کراتا ھے اور اس پر کوئی فیصلہ ھی نہیں ھوتا۔ کسی کیس کا فیصلہ کئی دھائیوں میں نہیں ھوتا اور کسی کے لئے عدالت چھٹی والے دن بھی لگ جاتی ھے۔ بس ایک بہت اچھی بات ھے سب عدالتیں گرمیوں کی چھٹیاں کرتی ھیں تقریبا دو مہینے کی۔ پتہ نہیں جرم کی بھی کوئی چھٹی ھوتی ھے۔ میری رائے میں جس طرح ٹی وی چینلز، پولیس، فوج، ریلوے، واپڈا، گیس والے اور دیگر ادارے چوبیس گھنٹے ڈیوٹیاں کرتے ھیں۔ عدالتیں چوبیس گھنٹے کام کیوں نہیں کرتی جب تک تمام کیسوں کے فیصلے نہیں ھوجاتے۔ ھنگامی حالات نافظ کیئے جائیں اور تمام کیسزز کے فیصلے وقت پر کئے جائے، جو بھی جج صاحب کسی دباو میں فیصلے کرتے ھیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد انٹرویو اور کتابوں میں مانتے ھیں کہ یہ فیصلے ھمارے غلط تھے تو ان کو اس پر سزا دی جائے اور عبرت کا نشانہ بنایا جائے تاکہ دوبارہ سب جج صاحبان دھیان کریں فیصلہ کرتے وقت۔ 
یوم حساب جب بھی آئے گا تو میرا اللہ آپ سب سے پوچھے گا جب تمھیں انصاف کرنے کا حق دیا گیا تھا تو تم نے کیوں نہیں کیا ۔ کیا حکومت وقت کا خوف اللہ کے خوف سے بڑا تھا۔جب تم انکے ڈر میں آئے تو کیوں نہیں سوچا کہ اس غلط فیصلے کا اپنے رب کو یوم حساب پر کیا جواب دیں گے، 
اور جو بھی حکمران یا صاحب طاقت جب اس طرح کے فیصلے کیلئے کہتے ھیں تو ان فرعونوں کو موت یاد نہیں رھتی یا نعوذ باللہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتے ھیں۔میں نے ھوش سنبھالا تو ذوالفقارعلی بھٹو صاحب، جنرل ضیاءالحق صاحب، محمد خان جونیجوصاحب، اسحاق خانصاحب، بے نظیر بھٹو صاحبہ، فاروق احمد خان لغاری صاحب، جرنل جیلانی صاحب، محمد نوازشریف صاحب،محمد شھباز شریف صاحب، جرنل پرویز مشرف صاحب، آصف علی زرداری صاحب، یوسف رضا گیلانی صاحب، راجہ پرویز اشرف صاحب، ممنون حسین صاحب، عمران خان صاحب، عارف علوی صاحب ان سب کو حکومت میں دیکھا ھے۔کتنے زندہ ھیں اور کتنے ھمیشہ کیلئے رہ گئے ھیں۔ ضروری نہیں کہ سب فیصلے عدالتیں ھی کریں یا کوئی جج کرے۔ کچھ فیصلے آپ کو خود بھی لینے ھیں۔ کیونکہ اپنے قول وفعل کے آپ خود بھی جج ھیں قبل اسکے کہ یوم حساب آئے اور اللہ کے آگے آپ سب شرمسار کھڑے ھوں اپنے فیصلوں پر۔

Prev کون سا کیمرہ خریدیں
Next آبادی کا عالمی دن

Comments are closed.