جہاز

جہاز
تحریر محمد اظہر حفیظ

جہازوں کی جس طرح کوئی تربیت گاہ نہیں ھوتی اسی طرح پائلٹ کی بھی کوئی تربیت گاہ نہیں ھوتی سب حالات سے ھی سیکھتے ھیں اور ٹرینڈ ھوتے ھیں،
جس پائلٹ سے پہلی ملاقات ھوئی وہ بس کا پائلٹ تھا پائلٹ گیٹ سے سوار ھوتا تھا اور نان سٹاپ فلائٹ اڑاتا کبھی راولپنڈی، کبھی فورٹ عباس پہنچتا تھا، چاچا بس چلانی کداں سکھی، کجھ نہ پوچھ پتر استاد نے ایک دن زیادہ لا لئی تے فر میں بس چلا کے لائلپور تک آگیا جی استاد اکثر بس میرے حوالے کرنی تے نشہ کرکے سو جانا بس اسی طرح اللہ دا فضل ھوگیا تے میں دس ھزار دے کے ھیوی ڈیوٹی دا لائسنس بنوا لیا، بڑا نیک بندا سی گھر آکے لائسنس دے گیا، ساڈا روزگار لگ گیا تے اللہ نے اسکو ھمارا وسیلہ بنایا۔ تے چاچا استاد کتھے گیا او اسی بس تے آ، میں دوسری تے، چاچا نشہ کرکے بس چل جاندی اے پتر جہاز ورگوں، اینج گولی دی سپیڈ نال، دو سیگریٹ دی مار اے پتر لائلپور تو پنڈی،
تسی پائلٹ گیٹ کیوں لکھواندے او، ڈرئیوار سیٹ والے پاسے، پتر جہاز گیٹ لکھوائیے تے بھلا لوگ بیٹھدے نے، بس نوں چلان تے جہاز ھی رھیا ھوندا اے بس ذرا شرم وچ پائلٹ لکھوا لئی دا اے ، تے عوام وی خوش، پر بس تے کدی کسے اعتراض نہیں کیتا جس تے لکھیا ھوندا اے وڑائچ طیارہ، خان طیارہ، کوھستان طیارہ، گجر طیارہ، چوھدری طیارہ بس اشارے ھی کر سکدے آں سچ کون بولے،
مجھے ساری سائنس سمجھ آگئی جب جہاز کو جہاز ھی اڑائے۔ تو اس کو عرف عام میں پائلٹ کہتے ھیں، یہ تو اللہ بھلا کرے سب جہاز بنانے والی کمپنیوں کا جو اس میں آٹو پائلٹ کا بٹن لگا دیتے ھیں اور جہاز صیح سلامت اڑتے رھتے ھیں،
کچھ دن پہلے ایک جعلی ڈگری ہولڈر منسٹر نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر پائلٹس کے لائسنس درست نہیں اور ھماری ائیر لائن کے دنیا سے رابطے کٹ گئے اور پاکستانی پائلٹس جہاں جہاں کام کر رھے تھے تقریبا فارغ کر دیئے گئے، اعتراض اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ” گونگے دی رمز نوں گونگے دی ماں ھی جانے” والی بات ھے ایک جعلی ڈگری والا ھی دوسرے جعلی لائسنس والے کو پہچان سکتا ھے،
چرسی چرسی کی پہچان رکھتا ھے، اور اس کو دنیا کے ھر شہر میں پتہ ھوتا ھے یہ ملتی کہاں سے ھے ۔ کیونکہ جہازوں کے ائیرپورٹ ھر بڑے شہر میں ھوتے ھیں اور ایندھن بھی وافر مقدار میں مل جاتا ھے، جہازوں کے ایندھن کی کبھی کمی یا شارٹیج کا نہیں سنا، اور اب تو پائلٹ اتنے ایکسپرٹ ھوچکے ھیں کہ وہ جہاز جہاں دل کرتا ھے لینڈ کروا لیتے ھیں، کچھ بیوقوف چوروں نے موٹروے پر بھی جہاز اتارنے کی سہولت رکھی لیکن ان کو کیا پتہ کہ اڑان کا ھنر کیا ھے،
بہت سے جہاز دیکھے اور ان کے بڑے بڑے ھینگرز بھی دیکھے لیکن اگر آپ ھمارے پائلٹس کا تجربہ دیکھیں یہ کسی بھی جگہ جہاز لینڈ کروانے کا تجربہ رکھتے ھیں حتی کہ ایسی مختصر اور ویران جگہ جہاں پیشاب کرنا بھی منع لکھا ھوتا ھے یہ وھاں بھی جہاز لینڈ کروادیتے ھیں ۔ بس تھوڑی سی ویران جگہ چاھیئے ھوتی ھے،
رن وے پر جانور ھوں یا ھوا میں پرندے ھمارے جہاز باآسانی لینڈ کرجاتے ھیں اور شاید ھی کوئی کریش کی رپورٹ آتی ھو، اگر کبھی آجائے تو ایدھی سروس اور چھیپا سروس والے سنبھال لیتے ھیں،
ایک دن غلطی سے ایک پائلٹ سے پوچھ بیٹھا سر جس حالت میں آپ جہاز اڑاتے ھیں کوئی اعتراض نہیں کرتا تو کہنے لگے جناب جو ملک چلا رھے ھیں اور جو جہاز چلا رھے ھیں دونوں کا ایندھن ایک ھی ھے تو اعتراض کون کرے،
اچھا سر سب سے محفوظ جہاز کون سا ھے آپ کی نظر میں جو چوبرجی کے پاس کھڑا ھے یا پھر جو چوکوں میں لگے ھوئے ھیں وہ کیسے، جناب وہ آٹو پائلٹ پر ھوتے ھیں ان میں کوئی پائلٹ نہیں ھوتا اس لئے محفوظ ھیں،
جناب یہ جو سڑکوں پر اتنے طیاروں کے حادثات ھوتے ھیں ان میں پائلٹ ھمیشہ کیسے محفوظ رھتا ھے، او ھو بادشاھو سنا تو ھوگا نا،
“چرسی کدی نہ مرسی”

Prev چوبارہ
Next امید

Comments are closed.