حلف

حلف
تحریر محمد اظہر حفیظ

ساری زندگی قرآن پر حلف لینے کو مناسب نہیں سمجھا۔ حتی کہ قسم کھانے پر بھی دل پریشان ہوجاتا ہے۔ کہ ایسی بھی کیا بے یقینی کہ قسم کھائی جائے ۔ اور کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ عدالت جانا پڑے اور قرآن پر حلف دینا پڑے۔
جگر کے علاج کے سلسلے میں مختلف ٹیسٹ اور مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کچھ تکلیف دہ ہیں اور کچھ آسان ہیں سب مرحلے بہت ہمت کے ساتھ گزار دیئے۔ کسی بھی مقام پر شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی یہ سوچا کہ مجھے یہ بیماری کیوں ہوئی۔ تاحیات نہ سگریٹ پیا، نہ شراب پی اور نہ ہی کسی قسم کا نشہ کیا۔ حتکہ کھانسی کا شربت بھی بہت ھنگامی حالات میں پیا ورنہ ادھر ادھر گرادیا۔
احتیاط میں ہی زندگی گزار دی۔
میں انٹیریر ڈیزائن کے پروجیکٹ کرتا تھا۔مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے کارپینٹر کو پولیس والے پکڑ کر لے گئے۔ مجھے آئی 9 تھانے سے فون آیا میں چلا گیا پتہ چلا کہ استاد شاگرد کا کوئی لین دین کا معاملہ تھا۔ شاگرد کہہ رھا تھا میں نے قرض ادا کردیا ہے۔
استاد بضد تھا کہ نہیں ادا کیا ۔ اس کا پولیس والا واقف تھا وہ اس کا فائدہ لیکر بدلہ لینا چاہ رہا تھا۔ استاد کہہ رھا تھا کہ یا پیسے دو یا پھر قرآن ہر حلف دو۔ میں تو خوف سے کانپ گیا کہ کچھ پیسوں کیلئے قرآن پر حلف ۔
کیا قرآن کا یہی استعمال رہ گیا ہے۔ میں نے درخواست کی کہ حلف رھنے دیں پیسے میں دے دیتا ہوں اور یوں میں نے وہ پیسے ادا کردیئے حالانکہ استاد جھوٹ بول رھا تھا اس کو غصہ اس کے کام چھوڑ کر جانے ہر تھا۔ اور وہ اس کو تھانے بند کروانا چاہ رھا تھا لیکن میں نے معاملہ ختم کروادیا۔ باقی الله کی الله جانے۔
میں بتا رھا تھا کہ جب سب ٹیسٹ مکمل ہوگئے تو انھوں نے بتایا کہ اب فائل ھوٹا جائے گی اور پنجاب ھیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی آپ کا انٹرویو لے گی اور پھر اجازت ملے گی۔
کارپینٹراستاد کا بھی دس ھزار کا رولا تھا اور ھوٹا کی فیس بھی دس ھزار ہی تھی۔ جوکہ بینکر چیک کی شکل میں جمع کرواچکا تھا۔
منگل 28 دسمبر اس انٹرویو کیلئے صبح 9 بجے وقت مقرر پر میں اور بیٹی ان کے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی آفس پہنچ گئے۔
سوا گیارہ بجے ہمیں انٹرویو کیلئے بلایا گیا اس مقصد،کیلئے ہم 8 اسٹام پیپر پیلے ہی جمع کروا چکے تھے۔ ساری کاغذی کاروائی مکمل تھی ۔ ہم انٹرویو والے کمرے میں داخل ہوئے دو ڈاکٹر صاحبان زوم پر آن لائن تھے لاہور سے اور دو ہی اس کمرے میں موجود تھے۔
میں اور میری بیٹی کو بیٹھنے کیلئے کہا گیا ہم بیٹھ گئے۔
ہمارے سامنے یزدان میں لپٹا قرآن مجید رکھا ہوا تھا۔ جی اس پر آپ دونوں ہاتھ رکھیں اور حلف دیں۔ یہ کیا ہے ۔ جی یہ قرآن مجید ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ۔
میں زندگی میں پہلی دفعہ اپنی بیٹی سے شرمسار ہوا کہ ہم نے کونسا جرم کیا یے یا کرنے جارہے ہیں جو اتنا بڑا حلف لیا جارھا ہے۔ کہاں ڈاکٹر نجم الحسن شاہ صاحب کہتے ہیں علیزے بیٹی ڈونر سیدھا جنت میں جاتا ہے اور جنت میں جانے والوں ہر بھی یقین نہیں ہے انکو۔
میرا دل کیا کہ معذرت کرکے اٹھ جاوں ایسے مرنے سے بہتر ہے بیماری سے مر جاوں۔ بیٹی نے میرا کانپتا ھاتھ پکڑا اور قرآن ہر رکھ دیا۔ ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے ۔ میں حلف دیتا ہوں جو کہوں گا درست کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا ۔ اور مجھے نہیں پتہ چل رھا تھا کہ میں کیا کہہ رھا تھا ۔ پھر بیٹی کو ان فرشتوں نے ساتھ والے کمرے میں بیٹھنے کو کہا اور انھوں نے مجھ سے سوال شروع کر دیئے۔ یہ کون ہیں جی میری بیٹی کتنی بیٹیاں ہیں چار نام بتائیں ۔ بتا دیئے۔ اب مجھے ساتھ والے کمرے میں بھیج کر فرشتوں نے بیٹی سے سوال کئے یہ کون ہیں جی میری ابا ۔ کتنے بہن بھائی ہیں چار بہنیں ۔ نام بتائیں اس نے بھی بتا دئیے۔ اپنی مرضی سے ڈونر بن رہی ہیں جی الحمدللہ ۔
حالانکہ ہم کاغذات کے ساتھ نادرا کا فیملی ریکارڈ لیکر جمع کروا چکے تھے۔
مجھے یہ حرکت سمجھ نہیں آئی۔ کہ کیا تھی شاید یہ ٹرانسپلانٹ سے مشکل کام تھا اس کے زخم بھر جائیں گے اس حرکت کے نہیں بھریں گے۔
پولیس جب بھی کسی مرد اور عورت کو گرفتار کرتی ہے تو اس طرح کے ہی سوال کرتی ہے ۔بس انھوں نے یہ نہیں ہوچھا کہ صبح ناشتہ کیا کیا تھا۔ باقی سوال وہی مشکوک والے تھے۔
پھر فرشتوں نے ہمیں اجازت دے دی اور کہا کہ ہم حکم نامہ ہسپتال کو بھیج دیں گے ۔ آپ کا سارا انٹرویو ریکارڈ کرلیا ہے تاکہ ضرورت پڑھنے پر کام آجائے۔
باہر آئے تو میری شکل دیکھ کر ایک صاحب صفائیاں دینا شروع ہوگئے کہ لوگ بہت فراڈ کرتے ہیں ہم نے علماء سے مشورہ کرکے یہ اس کا حل نکالا ہے۔ اس میں بادشاہی مسجد کے خطیب بھی شامل تھے۔
لوگ غریب رشتے داروں کو پیسے دے کر ڈونر بنا لیتے ہیں۔ اب ہم نے یہ سب روک لیا ہے۔
ھوٹا ٹرانسپلانٹ کرنے والے اداروں کا باپ ہے۔ میرے دل میں خیال آیا یہ کیسا باپ ہے جو بیٹی کے سامنے باپ کی تذلیل کرتا ہے۔
قرآن مجید ایک مکمل کتاب ہے جو سمجھنے اور ھدایت حاصل کرنے کیلئے نازل ہوئی ناکہ اس کام کیلئے جس استعمال میں لائی جارہی ہے۔
2021 میں دنیا کمپیوٹرائزڈ ہے آپ ہر طرح کا ڈیٹا لمحوں میں حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کو نادرا کے ڈیٹا سے منسلک کردیا جائے تو اس ادارے کیلئے کافی آسانی ہوجائے گی۔ جب فائل ھوٹا پہنچتی ہے یہ سب کاغذات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس سے قرآن مجید جس کام کیلئے نازل کیا گیا ہے اس کے لئے استعمال ہوگا۔
ٹرانسپلانٹ گردے کا ہو یا جگر کا مریض کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کریں اور ڈاکٹر آکر ناشتہ بھی دفتر میں ہی کریں۔
مہربانی فرماکر ٹیکنالوجی کو استعمال کیجئے اور مریضوں کیلئے سہولت مہیا کیجئے ۔ جب مریض فیس ادا کر رھا ہے تو ھوٹا کے نمائندے متعلقہ ہسپتالوں میں تعینات کیجئے۔ کچھ ہی تو ہسپتال ہیں جو ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن پر حلف دے کر کوئی جھوٹ نہیں بولے گا تو سارا عدالتی نظام دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کیا غلطی کر رھے ہیں۔ڈاکٹر صاحبان بہت اچھے تھے گفتگو بھی بہت اچھی رھی۔ پر یہ حلف سمجھ نہیں آیا۔
مجھے آج پہلی دفعہ اپنے رب سے شکوہ ہوا کہ مجھے ایسی بیماری کیوں لگائی جس کے علاج کیلئے پوری فیس جمع کروانے کے بعد قرآن پر حلف دینا پڑے۔ شاید میں بیمار نہیں چور ہوں اور روز قیامت کٹہرے میں کھڑا ہوں۔ اور انصاف کا منتظر ہوں۔ میری ڈونر بیٹی جو جنت میں جانے کے ٹکٹ ہر خوش ہے اب شک میں مبتلا ہوگئی ہے کہ شاید ہم کچھ غلط کر رھے ہیں۔ جو ہمیں قرآن پر حلف دے کر یقین دہانی کروانی پڑ رہی ہے کہ ہم جو بول رہے ہیں سچ بول رہے ہیں۔ آج ہم دونوں اداس ہیں ۔ صاحب اختیار سے درخواست ہے۔ اس نظام کو درست کیجئے ۔ جزاک الله خیر

Prev آزاد
Next جگر کا ٹکڑا

Comments are closed.