خوشی

خوشی
تحریر محمد اظہر حفیظ

ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوستوں سے ملکر، عزیز رشتہ داروں سے ملکر، نیکی کرکے، کسی کا راستہ صاف کرکے، کسی کی مدد کرکے۔ خربوزہ میٹھا نکل آیا، تربوز لال نکل آیا،سی این جی بغیر لائن مل گئی، آم لیک نہیں ھوا، ٹافی کھا لی، سموسے لے آئے، جلیبیاں کھا لیں، باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا، پاس ھوگئے، میٹرک کرلیا،ایف اے کرلیا، بی اے کر لیا، ایم اے کرلیا، کھانا کھالیا، دعوت کرلی، شادی کرلی، عمرہ اور حج کرلیا، چھوٹا سا گھر بنا لیا، امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا، بہن کیلئے جیولری لے لی،بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے،اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں نانے نانیاں بن گئے دادے دادیاں بن گئے سب کچھ آسان تھا اور سب خوش تھے پھر ھم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی، بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے، پوزیشن کیا آئے، نمبر کتنے ھیں، جی پی اے کیا ھے، لڑکا کرتا کیا ھے، گاڑی کونسی ھے، کتنے کی ھے، تنخواہ کیا ھے، کپڑے برانڈڈ چاھیئں یا پھر اس کی کاپی ھو، جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست انڈسٹری بن گئی ھم سے ھمارے دور ھوگئے ، فوج کمرشل ھوگئی، شاید ھی ھمارے بچوں کو فوج کے عہدوں کا پتہ ھو پر ان کو ڈی ایچ اے کونسے شہر میں ھیں اور انکے بلاک کتنے ھیں سب پتہ ھے، گھر کتنے کنال کا ھو، پھر آرچرڈ سکیمز آگیئں، گھر اوقات سے بڑے ھوگئے، اور ھم دور دور ھوگئے، ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹرسائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے، سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے پھر ان کے بل بجلی کا بل، پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل، پھر بچوں کی وین، بچوں کی ٹیکسی، بچوں کا ڈرائیور، بچوں کی گاڑی، بچوں کے موبائل، بچوں کے کمپیوٹر، بچوں کے لیپ ٹاپ، بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں، جہاز، فاسٹ فوڈ، باھر کھانے، پارٹیاں،پسند کی شادیاں، دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر، جم، پارک، اس سال کہاں جائیں گے، یہ سب ھم نے اختیار کئے اور اپنی طرف سے ھم زندگی کا مزا لے رھے ھیں کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ھے۔ جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔ ھمارے ایک دوست ھیں انکے گھر میں ایک چپل ھوتی تھی جو گھر سےباھر جاتا پہن جاتا، پھر وقت بدلا اب انکو پاکستانی جوتے پسند نہیں ھیں دوسرے ممالک سے ھی لیتے ھیں اور پریشان رھتے ھیں جوتے لینے دبئی یا اٹلی جانا پڑے گا پاکستان میں تو کام کے جوتے تک نہیں ملتے۔ اپنی زندگی کو سادہ بنائے تعلق بحال کیجئے، دوست بنایئے، دعوت گھر پر کیجئے، بے شک چائے پر بلائیں، یا پھر مولی والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے، دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے، واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، لنکڈ ان، ٹی وی،خبریں، ڈرامے، میوزک، یہ سب دوری کے راستے ھیں آمنے سامنے بیٹھئیے، دل کی بات سنیئے اور سنائیے ، مسکرائیے۔ یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ھے بلکہ مفت، اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ھے جس کیلئے ھم اتنی محنت کرتے ھیں، اور پھر حاصل کرتے ھیں۔ خوشی ھرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاوں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔ بس محسوس کرنے کی بات ھے ،چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی ۔ھمسائے کی بیل تو بجائیے ملئے مسکرائیے، بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔ پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پیتے تھے، ایک سیگریٹ سے سب کش لگاتے تھے،اور چھپاتے تھے۔ کباب انڈے والا برگر جس کو بند پلستر کہتے تھے بانٹ کر کھاتے تھے۔ بل ملکر ادا کیجئے، مہنگی جگہ بلا کر کسی غریب کا استحصال مت کیجئے، پرانی انارکلی،جین مندر بھی وھیں لاھور میں ھی ھے، ارم کیفے، میلوڈی، آبپارہ اسلام آباد میں اسی جگہ ھیں۔ سب اپنی پرانی جگہوں پر دوستوں کو بلائیے ھم نے کیا کرنا چائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ھے۔ آو وھاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ھی چائے بنتی ھے ملائی مارکے، چینی ھلکی پتی تیز۔ آو پھر سے خوش رھنا شروع کرتے ھیں۔ آو نا خوشبو لگا کے۔

Prev میرے بچو
Next پکا انا

Comments are closed.