دل کرتا ھے

دل کرتا ھے

تحریرمحمد اظہر حفیظ

دل کرتا ھےسب چھوڑ چھاڑ لاھور چلا جاوں کسی سے نہ ملوں نہ کسی کو نہ بتاوں لاھور کی موریاں ھوں اور دروازے دن رات ان کے سنگ بیتاوں بناوں تصویریں صبح و شام کی اور مست ھو جاوں جہانگیر کا مقبرہ کئی دن وھاں گزار دوں اس کے مینار درِخت نورجہاں کا مقبرہ پھر چلا جاوں مینار پاکستان مجھے قائد کی خوشبو آتی ھے وھاں سے کبھی اس پر اوپر جانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میرے قائد کے پاوں اس زمین پر لگے ھوئے ھیں پھر تھوڑا اگے بائیں ھوکر بادشاھی مسجد کی باھر سے تصویر بناوں اور پھر حضوری باغ کے پاس سے مسجد اور مسجد کے اندر داخل ھو جاوں سامنے کیا خوبصورت جیومیٹری فن تعمیر تصویریں بناتا جاوں ھر راھداری برآمدہ ھال مینار دروازے سب کی تصویریں بناتا جاوں کئی دن شامیں راتیں یہاں گزاروں اور راتوں کی پراسراریت کو دوبارہ محسوس کروں جیسے رات بارہ بجے کے بعد آپکے ساتھ ساتھ کوئی چلتا ھو اور کہتا کچھ نہ وھاں سے کئی روز اعتکاف کرکے نکلوں اور قلعہ بند ھو جاوں پہلے تو چڑھوں چھت پر بناوں تصویر بادشاھی مسجد کی مکمل اور پھر واپس آوں نیچے دوڑتا پھروں کبھی دیوان عام کبھی دیوان خاص کبھی شیش محل اور کبھی اسکی چھت کبھی تہہ خانے قید ھوجاوں کوڑے کھاوں اذیتیں سہوں اور پھر وھاں سے بادشاھی مسجد کے خوبصور مناظر طلوع آفتاب بھی اور غروب آفتاب بھی وھاں سے نکلوں چھوٹے دروزاے سے اور جاوں اقبال حسین کو سلام کروں انکو جو تکلیفیں دیتے ھیں ان سے حساب کروں اورٹکسالی رھوں وھاں بھی کئی دن کچھ یادیں سید صفدر حسین شاہ بخاری صاحب عرف کاکی تاڑ کی اور کچھ گنگروں کی چھن چھن کی بناوں تصویریں بازاروں کی کھسہ کیسے بنتا ھے اورطبلہ کیسے بنتا ھے چلتا جاوں اور نہ دیکھوں مڑ کر بھی پھجے پائے والے کو اور داخل ھو جاوں رنگ محل جیولری کپڑے سب کی تصویریں بناتا نکل جاوں شاہ عالم مارکیٹ وہاں سے دلی دروازے بیٹھ جاوں اور یاد کروں وہ بے نظیر صاحبہ کے یاد گار جلسے وہ قاضی حسین احمد کے نعرے ظالمو قاضی آرھا ھے وھاں سے سنہری مسجد مسجد وزیر خان کیا بات ھے مسجد وزیر خان کی اسکے کبوتروں کی اسکی چکیں ھٹواوں وہ ھمیشہ میری تصویر خراب کر دیتی ھیں پھر اسکی چھت پر جاوں کبھی گنبدوں کے آگے کبھی پیچھے ھر زاویےسے دیکھو کیا کاریگر تھے سبحان اللہ پھر نکلوں اور دیکھوں نئی رنگ ھوئی ھوئی گلیاں دیسی مرغیوں کے جال اور بازار وھاں سے چلا جاوں برانڈتھ روڈ مشینیں بیلٹ اوزار سب دیکھوں نکل جاوں ریلوےاسٹیشن کیا بلڈنگ ھے کیا جادو ھے براون پٹریاں اور لال بلڈنگ اور وہ ڈرا دینے والی آواز پلیٹ فارم نمبر 2 پر شالیمار ایکسپریس آگئی ھے۔ نکلوں وھاں سے شالامار باغ جاوں دیکھوں پانی کے جھرنے دیئے جلانے والے تاک اور فوارے جامن کے درخت آم کے درخت آگے جھومتا ھوا نکل جاوں واھگہ باڈر پاک فوج کو سلام کروں تھوڑی دیر بی آر بی کے کنارے جہاں عزیز بھٹی صاحب شہید ھوئے تھے بیٹھوں انکو یاد کروں دعا کروں اور نکل آوں جلو پارک اور کروں یاد اس کے پرندے جانور کھیت پانی کے کھیل اور واپس آوں نہر کے راستے اور مال روڈ پر چلوں تو ممکن نہیں جناح باغ لارنس گارڈن نہ جاوں وھاں کا ایک ایک درخت میرا دوست سب کو سلام کروں کرکٹ گراونڈ بارہ دری پہاڑی کینٹین اور لائبریری پھر جو نکلوں دوسری طرف لارنس روڈ تو گول گپے نہ کھاوں اوئے یہ کیا خبر وہ بابا مر گیا اب اس کا بھائی گول گپے لگاتا ھے پر وہ ذائقہ بہیں نہ ھی کھٹا اتنا ٹھنڈا پھر وھاں سے چلتا ھوا ٹمپل روڈ سے پہلےکاغان فوڈز کا آئس کریم ملک شیک پیوں اور جاوں سیدھا 5 ٹمپل روڈ سلام کروں پرانی رھائش گاہ انکل آئی اے رحمن صاحب کی اس کی تصویریں بناوں کتنے دن اور راتیں یہاں گزریں اب تو وھاں سے سب ھی چلے گئے باھر آوں ریگل چوک کشمش والی فروٹ چارٹ کھاوں اورجاوں واپڈا ھاوس میری زندگی کی سب سے بڑی بلڈنگ اس تصویر بناوں پنجاب اسمبلی اور نکل جاوں نسبت روڈ کیونکہ سب فوٹوگرافرزکی کوئی نہ کوئی نسبت ضرور ھے نسبت روڈ سے سب کو سلام کروں اورمیو ھسپتال کا چکر لگا ھریسہ کھاوں گوالمنڈی کا اورفوڈ سٹریٹ سے ھوتا ھوا بانساں والا بازار سے ھوتا ھوا بھاٹی گیٹ کچھ تصویریں زرا رات ھونے کا انتظار کروں وارث کی نہاری بڑا پیالہ 4 نان اور دو ٹھنڈی سپرائیٹ مزا آگیا نکلوں اور پہنچوں داتا دربار رات وھاں قیام ھر ایک سے پوچھوں کیا سین ھے دیگوں کی تصویریں ملنگوں کی تصویریں دربار کی تصویریں بازار کی تصویریں واہ جی لو جی دھمال ڈالنےکاوقت ھوا چاھتا ھے پہلے ڈھول والے کی تصویریں پھر دھمال والوں کی اور پھر کیمرہ بیگ ڈھول والے کے حوالے اور ھوجائےدھمال بہت عرصے بعد پسینہ بھی نکلا اور مزا بھی آیا سانس لیا کیمرہ بیگ اور چار گلاس حاجی مینگو جوس بس اور چل پڑا مال روڈ کی طرف سنٹرل ماڈل سکول اردو بازار گورنمنٹ کالج یار کتنا پرانا ھوگیا پر ویسے کا ویسا ھی پیارا تیری میری نسبت بہت پیاری مرشد آصف حسین زیدی کا کالج سلام جناب اور سامنے مرشد کی پرانی رھائش گاہ اور ناصر باغ سیاسی جلسہ گاہ اور اگیا جناح ھال تے میرا کالج نیشنل کالج آف آرٹس دل خوش ھوگیا جی آپ اندر نہیں جاسکتے کیوں جناب میں یہاں کا طالب علم تھا میرا مادر علمی ھے میں سارا لاھور پھر آیا کسی نے نہیں روکا معافی چاھتا ھوں اجازت نہیں کسی کو فون کر لیں شاید اجازت مل جائے پھر دل ھی نہیں کیا کمز پر چائے پئ میوزیم میں چلا گیا آنکھیں بھر آئیں تھیں میوزیم ایک اندھیری جگہ ھے آسانی سے آنسو صاف کر سکتے ھیں شاکر صاحب کے کام آگے شکایت کی سر یہ ھمیں ھمارے کالج نہیں جانے دیتے ان کے ایک کبوتر کی انکھ بھی بھر آئی یہ کیسے ممکن ھے پھر استاد اللہ بخش کو بھی بتایا سب بے بس تھے وھاں سے نکل کر پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ چلا گیا بھلے لوگ تھے کسی نے نہیں پوچھا کون ایک دو نے تو پہچان بھی لیا دکھ کچھ کم ھوا کچھ تصویریں بنائیں اینا مولکا احمد صاحبہ کیلئے دعا کی کہ آپ نے اچھا ادارہ بنایا کم از کم آرٹسٹ کی قدر تو ھے کوئی بندوق والا نہیں ھے باھر نکلا تو سامنے میوزیم کے باھر کھڑے پیتل کے بابے سے بھی شکایت کی اور پھر ٹولینٹن مارکیٹ کو دیکھا اور تھک کر بیٹھ گیاچوبرجی جانا چاھتا تھا سنا ھے بدل گیا ھے وھاں چوبرجی چھوٹی ھوگئی ھے اور میانی صاحب کا قبرستان بڑا ھوگیا ھے سارا لاھور ویسے کا ویسا تھا بس میرا کالج قید ھوگیا تھا سیکورٹی لوھے کی دیواریں اور بڑے بڑے گیٹ۔
مجھے بڑا سکون ملا ۔ سب گلیاں سب دروازے گھوما سب کی تصویریں بنائیں پر نئے لاھور میں جانا نہیں چاھتا تھا میں پرانا بندہ ھوں پرانے لاھور میں ھی پھرنا چاھتا ھوں وہ تو اللہ بھلا کرے میری بیوی کا جس نے سوئے ھوئے کو جگا کر پوچھا اظہر خیریت ھے کیا دل کرتا ھے مجھے بتائیں آپ سوتے میں بار بار کہہ رھے تھے میرا دل کرتا ھے میرا دل کرتے ھے میں رونے لگ گیا کیا ھوا میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ھوگئی نہیں میری جان بس تم سب مجھے لاھور جانے نہیں دیتے اور میرا دل کرتا ھے اچھا چلے جائیں کتنے دن کے کپڑے رکھوں میرا جواب تھا ھمیشہ کے۔
کیوں کیا مطلب آپکا کا ۔
دل جو کرتا ھے

Prev عید مبارک
Next دل دا حال

Comments are closed.