دنیا ایک سٹیج ھے 

دنیا ایک سٹیج ھے 
تحریر محمد اظہر حفیظ

دنیا ایک سٹیج ھے اور میں ایک فنکار روز ایک نیا ڈرامہ روز ایک نئی فلم۔ 
مجھے اچھا لگتا ھے ڈرامے کرنا نظمیں لکھنا نظمیں پڑھنا۔ میں سوتا ھوں تو خواب میں فلم شروع ھوجاتی ھے جاگتا ھوں تو فلم نظر آنا شروع ھو جاتی ھے مجھے ھر فلم ھر خواب پہلے دیکھا دیکھا لگتا ھے ھر فلم کا اینڈ اور ڈرامے کا ڈائیلاگ مجھے پہلے سے پتہ ھوتا ھے اس لیئے اب میں ڈرامے نہیں دیکھتا خواب دیکھتا ھوں۔ 
مجھے نہیں پتہ چلتا آج میں کونسے راستے سے گھر آیا یا کونسے راستے سے دفتر جاوں گا۔ بس فلم چلتی رھتی ھے اور مجھے وھاں پہنچا دیتی ھے اور تو اور مجھے پتہ ھوتا ھے آج پارکنگ کہاں ملے گی گاڑی ریورس کر کے لگانی ھے یا سیدھی۔ دفتر میں بیٹھوں گا تو کون کیا بات کرے گا اور کون سا بہانہ کرے گا مجھے غصہ نہیں آتا میں ان سب مناظر کا مزا لیتا ھوں۔ کوئی سوال کرے تو جواب دینے سے پہلے اس کے اگلے سوال کا بھی پتہ ھوتا ھے۔ کسی کا بلا وجہ غصے میں آنا مجھے پسند نہیں کوشش تو کرتا ھوں چپ رھو پر اگر بھڑک جاوں تو پھر کسی کا باپ بھی چپ نہیں کرا سکتا ۔ بہت سے سٹیج ڈرامے کیئے ۔ پر جو دنیا والا سٹیج ھے اس کا ڈرامہ سب سے شاندار ھے جن کے ماں باپ نہیں ھیں جب وہ اس کے متعلق کچھ سنتے ھیں تو رونے لگ جاتے ھیں پر جب ایسے لوگوں کو روتے دیکھتا ھوں جن کے ماں باپ سلامت ھوں تو دنیا ایک سٹیج ھے مجھے یقین آجاتا ھے۔ مجھے میرے عزیز از جان دوست نے کہا میں اب تمھارا کبھی یقین نہیں کروں گا تو جی اچھا سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ میں شاید اتنا اچھا اداکار بھی نہیں ھوں جتنا بڑا سٹیج یہ دنیا ھے۔ سٹیج کی پرفارمنس وقتی ھوتی ھے پھر نیا کھیل شروع ھو جاتا ھے بلکل دنیا بھی کچھ ایسا ھی کرتی ھے۔ کبھی امریکہ اور عراق کا کھیل کبھی ایران اور عراق کا کھیل کبھی روس اور افغانستان کا کھیل کبھی امریکہ اور افغانستان کا کھیل کبھی ایران اور سعودیہ کا کھیل۔ کبھی اچھے طالبان کبھی برے طالبان کبھی ایم کیو ایم کراچی کبھی ایم کیو ایم لندن۔کبھی مسلم لیگ ق کبھی مسلم لیگ ن کبھی مسلم لیگ ضیاء کبھی مسلم لیگ سائیکل کبھی مسلم لیگ شیر کبھی پیپلز پارٹی تلوار کبھی پیپلز پارٹی تیر کیا کیا ڈرامے ھیں۔ سائنس بہت ترقی کر گئی ھے الٹرا ساونڈ۔ سی ٹی سکین، بلڈ ٹیسٹ، جگر کا ٹیسٹ، دل کا ٹیسٹ معدے کا ٹیسٹ، دماغ کا ٹیسٹ ریڑھ کی ھڈی کا ٹیسٹ ابھی مزید انویسٹیگیشن کی ضرورت ھے شایدآپ بلکل ٹھیک ھیں قبض کا مسلئہ ھے او جناب کیا ڈرامہ ھے۔ دنیا ایک سٹیج ھے اور ھم اس کے اداکار۔ لوسٹوری شروع بہن بھائی کا پیار ماں باپ کا پیار، ماں بیٹی کا پیار باپ بیٹی کا پیار دوست کا پیار کزنز کا پیار،کلاس فیلو سے پیار اپنی بیوی سے پیار دوسرے کی بیوی سے پیار، یہ سب کیا ھے اداکاری اور اداکار ھر کوئی اپنا کریکٹر کر رھا ھے اور رول کرنے کے بعد بھول جاتا ھے کس نے کیا ڈائیلاگ بولے تھے کیا وعدے،عہد،قسمیں،ارادے کئے تھے۔ اور کیا سچ جھوٹ بولے تھے جان نثار کی تھی ۔یہ سب کیا تھا بس ڈائیلاگ میرا رول یہی تھا میری جان تمھیں تو پتہ ھے میں کبھی ولن ھوتا ھوں کبھی ھیرو کبھی بھائی کبھی بیٹا کبھی باپ کبھی استاد کبھی شاگرد کبھی دوست کبھی خاوند کبھی فنکار بس مختلف رول ھیں جو میں ادا کر رھا ھوں میں یہ سب نہیں ھوں میرا یقین کرو میں یہ سب نہیں ھوں میری کچھ مجبوریاں ھیں جو اصلی ھیں میرے کچھ رشتے ھیں جو سچے ھیں باقی سب فنکاری ھے اداکاری ھے۔ میں ایک اچھا فنکار نہیں ھوں مجھے جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا اور چپ رھنا بھی نہیں آتا روتے روتے مسکرا نہیں سکتا کیونکہ میں اچھا اداکار اچھا فنکار نہیں ھوں اسی لیئے ناکام ھوں سب کرداروں میں ناکام ھوں کسی بھی کردار میں فٹ نہیں ھوتا کیونکہ میری شکل ھی ایسی ھے جسکو کوئی بہروپ نہیں دیا جاسکتا۔ کوئی روپ نہیں دیا جاسکتا۔ 
کوئی میری مدد کرے مجھے یہ سب سکھا دے ۔ چاپلوسی کیسے کرتے ھیں جھوٹ کیسے بولتے ھیں بے وفائی کیسے کرتے ھیں جھوٹ کو سچ کیسے کہتے ھیں۔ کامیاب کیسے ھوتے ھیں ۔ کیونکہ سچا فنکار ناکام تو ھو سکتا ھے کامیاب نہیں ۔ سٹیج دنیا کا ھو یا دنیا داروں کا سٹیج ھے بس۔

Prev مثبت پاکستان
Next ماضی، حال، مستقبل

Comments are closed.