رمضان

رمضان
تحریر محمد اظہر حفیظ

رمضان جب بھی آیا سب کو اکٹھا کردیا، سحری افطاری بار بار ساتھ ساتھ بیٹھنا، نماز، تراویح، اعتکاف، تلاوت، صدقہ، زکوات، فطرانہ۔
لگتا ھے نظر لگ گئی کوئی ھی روزہ داروں کا گھر شاید ایسا ھو جہاں چھ چھ فٹ دور بیٹھ کر یہ سب فرائض انجام دیئے جاسکیں، چھوٹے گھروں میں تو سب اپنی اپنی سحری اور افطاری کریں گے، ڈھول والا بھی شاید ھی آئے کئی گلیاں ھی چھ فٹ کی ھیں وھاں تو وہ جا ھی نہیں سکتا ھاں باراں فٹ کی گلیاں ٹھیک ھیں درمیان میں چلتے ھوئے شاید وہ جگا سکے، اعتکاف کیلے شاید جگہ ھی تنگ پڑ جائے ھر ھجرہ چھ فٹ دور، وہ جو عید پر چوڑیوں اور مہندی کے سٹال لگتے تھے مہندی تو شاید چھ فٹ دور سے لگ جائے اس مقصد کیلئے چھوٹے وائپر لمبی سٹک کے ساتھ استعمال ھو سکتے ھیں پر چوڑیوں کا کیا نظام بنے گا، اتنے لمبے تو قانون کے بھی ھاتھ نہیں ھوتے، جو چھ فٹ دور سے چوڑیاں پہنا سکیں، لمبی ٹانگیں تو دیکھی ھیں جو مداری اور جوکر بانس لگا کر کرلیتے ھیں پر اتنے لمبے بازو کبھی نہ دیکھے نہ سنے، سوچ رھا تھا اگر پندرہ دن اپنی سحری کر لی جائے اور پندرہ دن آٹھ پہرہ روزہ رکھ لیا جائے، پندرہ دن اپنی افطاری کرلی جائے اور پندرہ دن اپنی افطاری کسی مستحق کو کروا دی جائے۔ کافی مسائل حل ھوسکتے ھیں شاید سب ھی سحری اور افطاری کر سکیں، موٹرویز کو کھول دیا جائے کیونکہ جس طرح ھماری مملکت پاکستان میں صاحب ثروت لوگ افطاری اور سحری کرواتے ھیں ماشاءاللہ چھ فٹ کے فاصلے پر بٹھانے کے حساب سے موٹرویز بھی چھوٹی پڑ جائیں گی ۔ ان ساری باتوں کا حساب ابھی سے لگانا ھوگا وقت کم ھے اور فاصلے بڑھتے ھی جارھے ھیں ۔ ھم گھر میں دس لوگ ھیں اور ھمیں ساٹھ فٹ جگہ چاھیئے بڑی مشکل سے ایڈجسٹمنٹ کی ھے ۔ سحری افطاری تو ھوجائے گی پر شاید ایک دوسرے کو جو دیکھ کر دلی سکون اور خوشی ملتی تھی اس سے محروم ھوجائیں۔ میں شاید دن میں خواب دیکھنے والا انسان ھوں سوچتا ھوں اس ایک مہینے میں مسجدیں چھوٹی پڑ جاتیں تھیں اگر چھ فٹ والا فارمولا لگائیں تو گلی محلے بھی نمازیوں کیلئے کم ھوجائیں گے۔ پھر کبھی سوچتا ھوں شاید اس دفعہ رمضان اور عید آئے ھی نہ، اکثر گھروں پر مستحقین آرھے ھیں اور سفید پوش گھروں سے واپس جارھے ھیں کیونکہ ھر طرف بجٹ ختم ھورھے ھیں، آج گھر کے باھر گاڑی کھڑی کر رھا تھا تو چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑی ایک باجی پوچھنے لگیں صاحب پہلے آپ کی گلی میں رمضان میں اچھا خاصہ راشن ھوجاتا تھا اس دفعہ کیا ھوا، حسب توفیق مدد کے بعد میں نے کہا باجی اس دفعہ راشن کی تقسیم پہلے سے شروع ھوگئی تھی شاید سب کی بس ھوگئی ھے، بینک سارے کمپیوٹرازڈ ھوگئے ھیں، پر بہت سے خالی اکاونٹ ھولڈرز کو میسج بھیج کر شرمسار کر رھے ھیں کہ وزیراعظم کرونا فنڈ میں چندہ دیجئے۔ انکو چاھیئے صرف ان اکاونٹس والوں کو میسج کریں جن کے اکاونٹس میں پیسے ھیں، رمضان مبارک کے پیغامات آنا شروع ھوگئے ھیں چند دن بعد عید مبارک کے میسج چل پڑیں گے۔ احتیاط کیجئے اگر ممکن ھو تو امداد کیجئے جنکا آپ کو پتہ ھے کہ انکو مدد کی ضرورت ھے، میسج سے کب کسی کا پیٹ بھرتا ھے جب سب ھی بھوکے ھوں، رمضان میں کافی سفید پوشوں کا پردہ رہ جائے گا اگر آپ ساتھ دیں تو،
ماسک منہ پر لگائی رکھیئے پر دل و دماغ سے اتار پھینکئے۔ عمل کیجئے علامہ محمد اقبال کی اس دعا پر
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
آمین

Prev یہ کیسی بہار آئی
Next بونے

Comments are closed.