روزے

روزے
تحریر محمد اظہر حفیظ

روزے انہی کے ھیں جن کے ماں باپ سلامت ھیں۔ مجھے آج محسوس ھوا کہ ماں باپ کے سایہ اٹھتے ھی شاید پھر سے رمضان، عید، شب برات، خوشی شاید اولاد کے حصے میں نہیں آتی، اور سارے روزے ھی آٹھ پہرے روزے ھوجاتے ھیں، مجھے یاد ھے اچھی طرح جب گھر سے باھر والدین سے دور پہلا روزہ رکھا تھا، نیشنل کالج آف آرٹس میں پہلا سال تھا، سحری کیلئے بیٹھا تھا سنت نگر لاھور، پائن دھی تے چینی دینا، پراٹھا بھی ساتھ ھی آگیا، دھی ڈالا چینی ڈالنے لگا پہلا چمچ چینی کا ڈالا دوسرا بھرا تو کوئی آواز نہیں آئی کہ بس وی کر چینی صحت واسطے اچھی نہیں، ھوندی تیرے ماں باپ دوناں نوں شوگر اے، امی جی نہ اویں کریا کرو، روزہ رکھن دیئو، میں نے دائیں بائیں دیکھا ابا جی پاس نہیں تھے میری ھچکی بند گئی سب دوست یار کی ھویا اے، کجھ وی نہیں گھر یاد آگیا آج پہلا روزہ گھر سے باھر ھے، شام کو افطاری پرانی انارکلی میں کی چند پکوڑے، فروٹ چاٹ کی پلیٹ اور روح افزا کا ایک گلاس، کچھ بھی تو ڈونگوں میں نہ تھا، نہ کوئی ڈانٹنے والا اوئے سارا تو ھی کھانا اے باقیاں دا وی خیال کر اور میں ھنستا رھتا، کھاتا رھتا، مجھے اچھا لگتا تھا ابا جی ساتھ سحر اور افطار کرنا، اور انکا ھنستے ھوئے ڈانٹنا، او یار صاب توں نہیں سدھر سکتا، جب دیکھا کوئی ساتھ نہیں ھے تو ساتھ بیٹھے روزہ دار کا بھی روح افزاء کا گلاس اٹھایا اور پی لیا کہ شاید کچھ بولے پر وہ کچھ نہیں بولا مزید سنجیدہ ھوگیا، بولتا بھی کیسے وہ کونسا میرے ابا جی تھے اور ھم تھے بھی دس باراں دوست، دوست ھنسنے لگے یار اظہر ھر ویلے دا مذاق اچھا نہیں ھوندا، پھر تو یہ سلسلہ ھی ھوگیا گھر سے باھر روزے رکھنے اور ماں باپ کو یاد کرکے رونا چار سال گزار کر واپس آگئے پر اب مجھے چینی کم ڈالنے کی عادت ھوگئی تھی پر جب ابا جی ساتھ روزہ رکھنے بیٹھا تو جان بوجھ کر دھی پر دوسرا چمچ ڈالنے کا ڈرامہ کیا چینی ڈالی نہیں اباجی نے میری طرف دیکھا، اور چپ ھوگئے کہ اتنے سالوں بعد گھر آیا ھے درگزر کردیتا ھوں، میں نے چمچ واپس چینی دان میں رکھا، تھوڑی دیر بعد دوبارہ بھر کے دھی کی طرف کیا صاب تو باز نہیں آنا پڑھ لکھ گیا ایں پر عقل نہیں آئی، تیرے ماں باپ نوں شوگر اے کیوں روگ لانا اے ۔ میں نے ابا جی کو جھپی ڈالی رونے لگ گیا، صاب کیا ھویا یار اننی جلدی نہ رویا کر اور خود بھی رونے لگ گئے، ابا جی روندا اوھی اے جس نوں چپ کران والا کوئی ھووے، کلا کی روے، امی جی بھی آگیئں کی ھویا محمد اظہر حفیظ، کجھ وی نہیں امی جی، وقت گزرتا گیا، 2011 میں امی جی اللہ پاس چلیں گیئں اور پھر ابا جی نے بھی کہنا چھوڑ دیا کیوں کہ شوگر ھوگئی تھی اور اب دھی پھیکا ھی کھانا پڑتا تھا، پھر 2015 میں ابا جی بھی چلے گئے اور دھی، روٹی، پراٹھا، مزا، چائے سب چلا گیا اور شوگر باقی رہ گئی، اب عبیرہ دھی پر کئی کئی چمچ ڈالتی ھے پر میں چپ رھتا ھوں کہ کل کو یہ بھی یاد کر کے نہ روئے اور اس سے بڑی کا مزاج تو مزاج یار ھے ھر وقت موڈ آف، میں نے سحری نہیں کرنی، اور اسکی ماں اچھا یہ بتاو آلو والا پراٹھا کھانا ھے یا روٹی چکن پالک کے ساتھ، میں نے کچھ نہیں کھانا، چل میری بیٹی بتا کیا بناوں وقت کم ھے کچھ کھا لے جلدی سے بتادے، میں کچھ نہیں کھاوں گی، بیٹا بہت مشکل ھے آٹھ پہرا روزہ رکھنا، بس مجھے کوئی نہ سمجھائے، بابا جی آپ نے بھی نہیں سمجھانا، وہ کمرے سے باھر گئی اور میں رونا شروع ھوگیا کہ یار ساڈا وی کوئی ھووے جیڑا ترلے پاوے کجھ کھا لے میرا لعل، میں وی ضد کراں، تے او مینوں مناون ۔ پر کی کراں میاں محمد بخش صاحب فرماندے نے ” عیداں تے شبراتاں آئیاں سارے لوکی گھراں نوں آئے
او نئیں آئے محمد بخشاء جیڑھے آپ ہتھیں دفنائے”
آنسوں سے بھی اپنی کمال دوستی ھے ھمیشہ سے ساتھ ھیں، میری امی جی پردہ کرتی تھیں، کبھی مجھے ھاسٹل ملنے نہیں آئی کچھ دوستوں کی والدہ صاحبہ ملنے آتیں تو میں تڑپ جاتا تھا، مجھے نیشنل کالج آف آرٹس برا لگتا تھا کہ میں کیوں والدین کی زندگی میں ان کو گھر چھوڑ آگیا، پھر ساری زندگی ان کے ساتھ گزاری بہت دفعہ باھر ممالک میں نوکری کا چانس ملا پر میں ان سے دور روزے برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس لئے ان کے ساتھ ھی رھا۔ امی جی کے جانے کے بعد اگلے روزے میں نے شمالی وزیرستان میں رکھے کیونکہ میری ھمت نہ تھی امی کے بغیر گھر میں روزے رکھنے اور عید کرنے کی، اس سے اگلے سال میں چائنہ چلا گیا اور روزے اور عید وھاں کی۔ ابا جی کہنے لگے صاب عید اولاد نال ھوندی اے کی کم پھڑیا اے ھر سال گھروں دور عید دا بچے ترس جاندے نے، او ھور کسے نوں نہیں دس سکدے، کی چاھیدا اے پیسے ھی سب کچھ نہیں ھوندے اور پھر میں نے ھمیشہ عید گھر پر کی، مجھے اپنی غلطی کا احساس بھی ھوا۔ آج ماں باپ کی کمی شدت سے محسوس ھوئی میں بھی تو انکا لاڈلا چھوٹا بیٹا تھا مجھے کوئی پوچھتا ھی نہیں ھے کیا کھائیں گے۔ بس پرھیزی کھانے۔ دل کرتا ھے بدپرھیزی کروں کل دھی پر چینی ڈال کر کھاوں شاید اباجی کی آواز ھی آجائے، صاب خیال کر۔ اپنا نیئں تے بچیاں دا ھی سوچیا کر۔

Prev بونے
Next کرونا کہانی

Comments are closed.